افغان سرحد سے ملحق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد اب ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔
ان قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات سے جہاں بنیادی انتظامی ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچا وہیں وفاق کے زیر انتظامات قبائلی علاقوں یعنی ’فاٹا‘ میں سینکڑوں اسکولوں کو بھی بم دھماکوں سے نشانہ بنایا گیا۔
ماہر تعلیم اے ایچ نئیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی علاقوں میں خاص طور پر دہشت گردوں نے لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنایا، جن کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
اُدھر پاکستان کے سرکاری ریڈیو نے وفاقی وزارت برائے سرحدی اُمور کے ترجمان کے حوالے سے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں تباہ ہونے والے لڑکیوں کے اسکولوں کی بحالی کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔
وزارت برائے سرحدی اُمور کے ترجمان کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران فاٹا میں لڑکیوں کے 1195 اسکول متاثر ہوئے جن میں سے 555 اسکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے جب کہ 491 کو جزوی نقصان پہنچا۔
ترجمان کے مطابق اب تک 895 اسکولوں کو بحال کر دیا گیا ہے جب کہ باقی کی تعمیر نو یا بحالی کا کام جاری ہے۔
ماہر تعلیم اے ایچ نئیر کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
’’قبائلی علاقوں کے اندر تعلیمی اداروں پر بہت برے اثرات پڑے ہیں ۔۔۔۔ طالبان نے ان تعلیمی اداروں کو تباہ کیا، اسکولوں کو تباہ کیا لڑکیوں کے اسکولوں کو خاص طور پر تباہ کیا ۔۔۔ میرا خیال یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں جب تک کہ اسکولوں کو مکمل طور پر بحال نہیں کر دیا جاتا وہاں کی نوجوان نسل کو زندگی سے امید دلانا بہت مشکل ہو جائے گا۔‘‘
اے ایچ نیئر کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے لیے تعلیم کے دروازے کھولے جائیں۔
’’حکومت کو چاہیئے کہ وہاں اسکولوں کو مکمل طور پر بحال کرے، استادوں کی اسکریننگ کرے ان میں سے جہادی عناصر کو نکال دے کیونکہ ان کی وہاں موجودگی سے بچوں پر بہت منفی اثرات پڑ سکتے ہیں بچوں کو تعلیم کے اتنے اچھے مواقع دے کہ تعلیم میں دلچسپی ان کی دوبارہ شروع ہو ایسے پروگرام شامل کریں جس میں وہ بچے جو کہ تعلیم میں کچھ انتہائی پیچھے رہ گئے ہیں ان کو فوری طور پر آگے بڑھنے کے مواقع مل سکیں یہ سب کچھ بہت ضروری ہے میرا خیال ہے وہاں پر صرف اسکول ہی نہیں وہاں پر اب کالجز، ڈگری کالجز اور ہائر ڈگریز کے پروگرام شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے یہ سب کچھ ہو سکتا ہے بشرط کہ حکومت اس پر توجہ دے۔‘‘
پاکستان میں سیاسی اور عسکری حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں کے بعد وہاں حکومت کی عمل داری بحال ہو چکی ہے اور فاٹا میں بنیادی انتظامی ڈھانچے کی تعمیر کے عمل میں تعلیمی اداروں کی بحالی پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔
جب کہ قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو کھیل اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔