سرکاری کمیٹی کے لیے تحریک انصاف نے نام تجویز کر دیئے

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان

عمران خان کے ترجمان نعیم الحق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وفاقی حکومت کو دو نام تجویز کیے گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے طالبان عسکریت پسندوں سے براہ راست مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے مجوزہ سرکاری ٹیم کے لیے اپنے دو عہدیداروں کے نام حکومت کو تجویز کردیے ہیں۔

تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کے ترجمان نعیم الحق نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دونوں شخصیات کے نام جماعت کی صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکومت سے لیے گئے ہیں تاہم انھوں نے نامزد عہدیداروں کے نام بتانے سے گریز کیا۔

’’(وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ) خیبرپختونخواہ حکومت اپنے نمائندے نامزد کرے، وزیراعلٰی (کو نامزد) کرنے کا نہیں کہا گیا تھا، جب حکومت منظور کر لے گی تو پھر ان کے ناموں کا اعلان کر دے گی۔‘‘

تاہم مقامی ذرائع ابلاغ میں ایک نام صوبائی اسمبلی کے رکن گلزار خان کا نام سامنے آ رہا ہے۔

سرکاری مذاکراتی ٹیم کے رابطہ کار اور وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی سلامتی عرفان صدیقی نے اس سے پہلے کہا تھا کہ عسکریت پسندوں سے بات چیت کے لیے وزیرستان جانے والے وفد میں تحریک انصاف کے نمائندے رستم شاہ مہند کا نام تجویز کیا گیا تھا۔

تحریک انصاف کی طرف سے یہ اعلان وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی عمران خان سے گزشتہ روز ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد سامنے آیا جس میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات سے متعلق امور پر بات چیت کی گئی۔

تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رکن حامد علی خان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ممکنہ فیصلے کے تحت وفاقی وزیر داخلہ مجوزہ کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔

’’اگر براہ راست بات چیت ہو گی تو یہ واضح نہیں کہ چوہدری نثار کے ساتھ اور کون کون ہو گا۔ کیا فوج کا نمائندہ بھی ہو گا؟ ہم چاہتے ہیں کہ یہ عمل کامیاب ہو اور اس لیے تنقید نہیں کرتے ورنہ بہت سی ایسی باتیں کی جا سکتی ہیں کہ کس طرح یہ عمل (متاثر) ہوا۔‘‘

رابطے کی کوششوں کے باوجود حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے وزیر داخلہ کی قیادت میں مذاکراتی ٹیم کے قیام کے ’’فیصلے‘‘ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

سرکاری مذاکراتی ٹیم کے چند اراکین اور حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ شاید تمام شدت پسند گروہوں سے ممکنہ معاہدہ نا ہو۔ تاہم ان کے بقول اس سے ’’پاکستان دشمن عسکریت پسندوں‘‘ کو علیحدہ کرنے میں مدد ملے گی جنھیں بعد میں ٹارگٹ کرنا آسان ہو۔

ادھر سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر مسلح افراد کے حملے کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کو دیانت دار افسران پر مشتمل ایک غیر جانبدارانہ ٹیم کے قیام کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد کی ضلعی بار کے صدر محسن کیانی کا سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ یہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم آئندہ دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرے گی۔

’’سپریم کورٹ کے حکم کے تحت تمام عوامی شخصیات روک دیا گیا ہے کہ وہ تحقیقات کے مکمل ہونے تک اس متعلق کوئی بیان ذرائع ابلاغ میں نا دیں تاکہ تحقیقات متاثر نا ہوں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکم وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ایک بیان پر جاری کیا گیا۔

چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ ہفتے پارلیمان سے خطاب میں کہا تھا کہ حملے میں مرنے والا جج مسلح افراد کی بجائے اپنے محافظ کی فائرنگ سے ہلاک ہوا تھا۔ اس بیان کی وکلاء نے شدید مذمت کرتے ہوئے پیر کو ڈسٹرکٹ کورٹ میں احتجاج بھی کیا۔