پاناما لیکس: قطری شہزادے کا خط زیر بحث

فائل فوٹو

سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں سے متعلق جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران قطر کے شہزادے کی طرف سے لکھے گئے خط کا ذکر نمایاں رہا۔

ایک مرکزی درخواست گزار جماعت تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں کہا کہ اس معاملے میں قطر کے شہزادے کا جو خط سپریم کورٹ میں جمع کروایا گیا وہ ’’فراڈ‘‘ ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس خط کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

اُنھوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لندن کے فلیٹس کے حوالے سے اگر شریف خاندان کے موقف میں تبدیلی آئی تو اُنھیں بھی عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ لندن میں شریف خاندان کی زیر ملکیت چار فلیٹس کے لیے رقم پاکستان سے منتقل نہیں ہوئی اور اپنے اس موقف کی دلیل کے لیے انھوں نے قطر کے ایک شہزادے کا خط بطور دستاویزی ثبوت پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ فلیٹس کی خریداری کے لیے قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ ہونے والی کاروباری شراکت سے حاصل کردہ رقم خرچ ہوئی۔

وکیل کی طرف سے قطر کے سابق وزیراعظم و وزیر خارجہ شہزادہ حمد بن جاسم بن جبر الثانی کا ایک تحریری بیان عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تھا، جس میں قطری شہزادے کا کہنا تھا کہ 1980ء کی دہائی میں نواز شریف کے والد (میاں محمد شریف) نے الثانی خاندان کی جائیداد کی خریدو فروخت کے کاروبار میں ان کے خیال میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم سرمایہ کاری کی جو میاں شریف نے دبئی میں اپنا کاروبار فروخت کر کے حاصل کیے تھے۔

تاہم تحریک انصاف کی طرف سے اس خط پر تحفظ کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

جمعرات کو ہونے والی سماعت کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کا دعویٰ تھا کہ تحریک انصاف اب تک وزیراعظم نواز شریف پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی ہے۔

واضح رہے کہ بدھ کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس معاملے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔