اسٹیٹ بینک اور سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے فراہم کردہ نام مسترد

20 اپریل کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے قائم تین رکنی بینچ کا پہلا اجلاس بدھ کو ہوا۔

پاکستان کی عدالت عظمٰی کے تین رکنی خصوصی بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ’جے آئی ٹی‘ کی تشکیل کے معاملے کا جائزہ لیا۔

بدھ کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ’جے آئی ٹی‘ کے لیے اسٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی طرف سے فراہم کیے گئے ناموں کو مسترد کر دیا۔

20 اپریل کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے قائم تین رکنی بینچ کا پہلا اجلاس بدھ کو ہوا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے دیگر اداروں کی طرف سے بھیجے گئے ناموں پر سپریم کورٹ کے بینچ کی طرف سے کچھ نہیں کہا گیا، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اُن ناموں کو عدالت نے منظور کر لیا ہے۔

جن دیگر اداروں کے نمائندے ’جے آئی ٹی‘ میں شامل ہوں گے اُن میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ ’ایف آئی اے‘ اور قومی احتساب بیورو ’نیب‘ کے علاوہ فوج کے دو انٹیلی اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی یعنی ’ایم آئی‘ کے افسران شامل ہیں۔

ملک کے مرکزی اسٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی طرف سے بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے ایک ایک نام بھیجا گیا تھا، لیکن سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اُن ناموں کو مسترد کر دیا۔

اب اس معاملے کی سماعت پانچ مئی کو ہو گی، جس میں اسٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے سربراہان کو پیش ہونے کا حکم دیا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’جے آئی ٹی‘ کے لیے اپنے اپنے اداروں سے مزید اہل افسران کے ناموں کی فہرست بھی ہمراہ لائیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا بینچ اپنے طور پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے نمائندوں کا انتخاب کرے گا۔

پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے بعد 20 اپریل کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا تھا، جس میں اس معاملے کی مزید تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ’جے آئی ٹی‘ بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بیٹوں حسن اور حسین نواز سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ تحقیقاتی عمل میں حصہ بنیں۔

اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنی رپورٹ 60 روز میں سپریم کورٹ میں پیش کرنی ہو گی جب کہ ہر 15 روز کے بعد اس ٹیم کو تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت سے بھی عدالت کو آگاہ کرنا ہو گا۔

واضح رہے کہ چھ رکنی ’جے آئی ٹی‘ میں ایف آئی اے، نیب، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، اسٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشین کے نمائندے شامل ہوں گے۔