پاکستان نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن "ضرب عضب" اور یہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی بحالی کے لیے اب تک تقریباً ایک ارب نوے کروڑ ڈالر خرچ ہو چکے ہیں جو تمام اس نے اپنے وسائل سے پورے کیے ہیں۔
یہ بات جمعہ کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں دفترخارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے بتائی۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ سال جون میں فوج نے افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تھی جو اب اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکی ہے۔
حکام نے اس میں اب تک 3500 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک اور ان کے زیر استعمال ٹھکانوں اور اسلحے کے ذخائر کے علاوہ ان کے رابطوں کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنے کا بتایا ہے۔
اس فوجی آپریشن سے حاصل ہونے والے نتائج کو گو کہ امریکہ سمیت عالمی برادری کی طرف سے قابل تعریف قرار دیا گیا ہے لیکن حال ہی میں امریکہ کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان بلا تفریق تمام دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرے۔
اس بیان سے قبل افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی اسلام آباد پر یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ پاکستانی فوج افغانستان کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر رہی۔
تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ وہ یہ کارروائیاں بلا تفریق تمام دہشت گردوں کے خلاف کر رہا ہے۔
امریکہ کی طرف سے انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ملک پاکستان کو اتحادی اعانتی فنڈ کی مد میں رقم ادا کی جاتی رہی ہے اور لیکن اس کی حالیہ قسط پاکستان کو ادا نہیں کی گئی جس پر پاکستانی عہدیداروں نے بقول امریکہ سے بات چیت کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت یہ عزم ظاہر کر چکی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں گی اور پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی پالیسی پر بھی سختی سے کاربند ہے۔
ایک روز قبل ہی قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ شمالی وزیرستان کی وادی شوال کی پہاڑیوں پر فورسز نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور زمینی فوج اور فضائیہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج قبائلی علاقوں میں مزید چار سال تک رہے گی۔