یہ مغربی نوجوان ‘ٹریول انفلوئینسر’ اپنی ویڈیوز میں پاکستان کے سفر کے دوران اس کے گن گا رہے ہیں مگر کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اپنی خوبصورت فلٹر لگی ویڈیوز کے ذریعے تشدد کے شکار اور قدامت پسند ملک کی غلط تصویر پیش کر رہے ہیں۔
جیسے جیسے ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی جا رہی ہے وزیر اعظم عمران خان ملک میں سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے غیر ملکیوں کے لئے ملک کا ویزا لینے کی شرائط نرم کر دی ہیں۔
اس سب کی وجہ سے ملک میں بہت سے غیر ملکی بلاگر سیاحت کے لئے آ رہے ہیں اور وہ پاکستان کی بلند چوٹیوں، پر فضا ساحلوں، اس کی زرخیز ورثے اور تاریخ، قدیم وادی سندھ کی تہذیب اور اسلامی عمارتوں کے لئے رطب اللسان ہیں۔
کھانوں کے لئے سیاحت کرنے والے ‘یوٹیوبر’ مارک وائنز نے اپنے لاکھوں سبکرائبرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘‘پاکستان کا سفر زندگی کا یادگار سفر تھا۔’’
پولینڈ سے تعلق رکھنے والی بلاگر ایوا زو برگ نے اپنے فالورز کو بتایا کہ پاکستان ‘‘جلد ہی دنیا کی سب سے زیادہ چاہے جانے والا سیاحت کا مقام بن جائے گا۔’’ ایسے ہی کینیڈا سے تعلق رکھنے والی سوشل میڈیا انفلوئینسر روزی گیبریل نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ وہ اس ملک کے بارے میں اپنے سوشل میڈیا کی مدد سے سچ بتائیں۔
مگر بہت سے لوگوں کو خدشات ہیں کہ ان سوشل میڈیا انفلوئینسرز کی جانب سے ملک کی کھینچی گئی تصویر حقیقت سے بہت دور ہے۔ ملک میں انفراسٹرکچر سے لے کر انتہاپسندی کے مسائل ہیں۔ ایسے میں کیا پاکستان موجودہ دور کی سیاحت کے لیے موزوں ہوگا؟
ملک میں سیاحت کے فروغ کے سلسلے میں ایوا زو برگ نے، جن کے کلپ حکام کی جانب سے بھی شئیر کئے گئے ہیں، حکومت کے کامرس کے شعبے میں نئی پیش قدمی، ترقی پذیر پاکستان کی تعریف کی، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس سلسلے میں پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائینز، جن کے ساتھ انہوں نے کام بھی کیا ہے کہ بھی تعریف کی۔
جب کہ مارک وائنز نے پاکستان ٹریول مارٹ کی جانب سے منعقد کی گئی ٹورزم ایکسپو کو اس کے سیاحتی دورے کو بہترین بنانے پر سراہا۔
گیبرئل نے کہا کہ ان کا پاکستان بھر میں 3500 کلومیٹر طویل موٹر سائکل پر دورے کو ممکن بنانے میں اومان میں پاکستانی ایسوسی ایشن کا ہاتھ ہے۔
ستر کی دہائی میں یورپ و امریکہ سے آئے ہوئے ہپیوں کی گزرگاہ کے لئے مشہور پاکستان میں پچھلے تیس برس سے جاری انتہاپسندی کی وجہ سے سیاحوں کا آنا بہت کم ہو گیا ہے۔
ملک میں دہشت گردی کے واقعات اب بھی ہوتے ہیں مگر حکام اور کاروباری طبقہ ملک پر غیر محفوظ ہونے کا لیبل ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اس لئے وہ خوش ہیں کہ یہ گہری تحقیق سے عاری سوشل میڈیا کے افلوئینسر اپنی خوشکن ویڈیوز اور سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے ملک کا بہتر چہرہ دکھا سکتے ہیں۔
پاکستان ٹریول مارٹ کے سی ای او علی ہمدانی کا کہنا تھا کہ ‘‘لوگ ان کا یقین کرتے ہیں۔’’
مگر پھر بھی بہت سے پاکستانی اور تجربہ کار سیاح اس بات پر خبردار کرتے ہیں کہ ایسی سوشل میڈیا پوسٹس حقیقت سے قریب تر نہیں ہیں۔
سیاحت کی انڈسٹری ابھی نومولود ہے، حکومت کی جانب غیر ملکی شہریوں پر سفری پابندیاں غیر واضح ہیں۔ مردوں کی جانب سے خواتین کو سڑکوں، بازاروں میں ہراساں کیا جاتا ہے، اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔
اکیاون برس کی برطانوی سیاح جون کا کہنا تھا کہ ‘‘یہ سب کہ پاکستان میں سب کچھ اچھا ہے بہت غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ جون جنہوں نے اپنا پورا نام دینے سے انکار کر دیا کا دعویٰ تھا کہ انہیں سوات میں سیاحت کے دوران پولیس کی طرف سے ہراساں کیا گیا تھا۔
اسلام آباد میں منعقد ٹورازم سمٹ میں شریک زارہ زمان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا انفلوئینسرز کو بہت سی ایسی سہولتیں میسر ہوتی ہیں جو عام سیاحوں کو نہیں ملتیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘‘یہ سب سوشل میڈیا انفلوئینسرز اپنے عملے اور طاقتور لوگوں کی حفاظت میں سفر کر رہے ہوتے ہیں۔’’
امریکی بلاگر الیگزینڈرا رینلڈز کا کہنا تھا کہ جو کچھ یہ انفلوئینسر پبلش کرتے ہیں وہ اصل تجربے کی عکاسی نہیں کرتا۔ الیگزینڈرا پاکستان میں پانچویں مرتبہ سفر کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں ایسے خطرات ہیں جو ناتجربہ کار سیاحوں کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں اور ایسی سوشل میڈیا ویڈیوز انہیں گمراہ کر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘‘ابھی جب کہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کمزور ہے، ایسے میں خطرہ مول نہیں لینا چاہئے۔’’ ان کا کہنا تھا کہ انہیں بھی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہراساں ہونے کا تجربہ ہے۔
ایک اور سیاح سیبسٹئین کا کہنا تھا کہ انہیں مٹھی میں چودہ گھنٹے کے لئے حراست میں لے کر ان سے ایجنسیز نے سوالات کئے۔
اس کے علاوہ ملک میں یہ بات بھی عام ہے کہ حکومت کی جانب سے مقامی انفلوئینسرز کی بجائے غیر ملکی انفلوئینسرز کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
زارہ زمان نے کہا کہ ‘‘مجھے اس بات پر غصہ آتا ہے کہ ہماری ترجمانی سفید فام لوگ کریں۔ لگتا ہے کہ ہم ابھی تک نوآبادیاتی زمانے کے اثرات سے نہیں نکلے۔’’