سینیٹ کمیٹی کی جانب سے خواجہ سراؤں کے حقوق کا مجوزہ بِل منظور

فائل فوٹو

پاکستان میں سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے قانون کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے جس کے تحت خواجہ سراؤں کو الیکشن لڑنے اور سرکاری عہدہ رکھنے کا حق حاصل ہوگا۔

قانون کے تحت خواجہ سراؤں کو پراپرٹی کی خرید و فروخت، کرایہ اور لیز پر حاصل کرنے کا بھی حق دیا گیا ہے، جبکہ خواجہ سراؤں کو بھیک مانگے پر مجبور کرنے یا بھرتی کرنے والوں کیلئے چھ ماہ قید اور جرمانہ کی سزائیں رکھی گئی ہیں۔

بل کے مطابق خواجہ سراؤں کو وراثت میں حق ملے گا اور انہیں قانونی دستاویزات میں اپنی جنس اپنی مرضی کے مطابق لکھوانے کا حق حاصل ہوگا۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے اس قانون میں خواجہ سراؤں کے قومی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ الیکشنز میں ووٹ کاسٹ کرنے کے حق کا بھی تحفظ کیا گیا ہے، جبکہ اگر کوئی خواجہ سرا الیکشن لڑنا چاہے تو اس کو یہ حق بھی دیا گیا ہے۔

قانون میں خواجہ سراؤں کو اپنی شناخت ’میل‘ یا ’فیمیل‘ خواجہ سرا کے طور پر کروانے کا حق دیا گیا ہے۔ کوئی بھی خواجہ سرا18 برس کی عمر کے بعد شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں خود کو ’میل‘ یا ’فیمیل‘ خواجہ سرا کے طور پر درج کروا سکے گا، جبکہ جن خواجہ سراؤں کو پہلے سے نادرا کے شناختی کارڈ جاری ہو چکے ہیں انھیں بھی اپنا نام اور جنس اپنی شناخت کے مطابق تبدیل کرنے کی اجازت ہوگی۔

قانون کے تحت خواجہ سراؤں کے ساتھ وراثت میں بھی کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں برتا جاسکے گا۔ وراثت میں خواجہ سرا کے حق کا تعین شناختی کارڈ میں ظاہر کی گئی جنس کے مطابق ہوگا، ’میل‘ خواجہ سرا کا وراثت میں حق آدمی جبکہ ’فیمیل‘ خواجہ سرا کا وراثت میں حق خاتون کے برابر ہوگا۔ مبہم خصوصیات کے حامل خواجہ سرا ہونے کی صورت میں 18 برس کی عمر کو پہنچنے پر ’میل‘ یا ’فیمیل‘ خصوصیات کو دیکھتے ہوئے وراثت کا تعین ہوگا، جبکہ 18 برس کی عمر سے قبل جنس کا تعین میڈیکل آفیسر کرے گا۔ قانون کے مطابق خواجہ سرا کے والدین کو بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق وراثت میں مرد یا خاتون کے مطابق حصہ دے سکتے ہیں۔

قانون میں حکومت کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کیلئے پروٹیکشن سنٹرز، بحالی مراکز بنانے سمیت صحت کی سہولیات فراہم کرے گی اور خواجہ سراؤں کیلئے تعلیم بالغاں کا اہتمام کرے گی۔

جرائم میں ملوث خواجہ سراؤں کیلئے علیحدہ حوالات اور جیلوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جبکہ روزگار کمانے میں مدد فراہم کرنے کیلئے خواجہ سراؤں کیلئے ’سپیشل ووکیشنل ٹریننگ سنٹر‘ بنائے جائیں گے۔ چھوٹا کاروبار شروع کرنے والے خواجہ سراؤں کی آسان قرضوں اور گرانٹس کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

تعلیمی اداروں، ملازمت، تجارت کے مواقع، صحت، رہائش اور سفر کی سہولیات میں خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ممانعت ہوگی، جبکہ خواجہ سراؤں کو حراساں کیے جانےسے ممانعت کو بھی قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔قانون میں پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے خواجہ سراؤں کو تعلیم کے یکساں مواقع دینے کے پابند ہیں جبکہ حکومت سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کو مفت بنیادی تعلیم فراہم کرنے اور ملازمت کے مواقع دینے کے حوالے سے اقدامات کرے۔

سینیٹ کے رکن کریم خواجہ نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفت گو میں کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کی حقوق کے لیے بننے والے اس بل میں ریاست کو ان کے حقوق کا خیال کرنا پڑے گا، ریاست کو ان کی دیکھ بھال کرنا پڑے گی اور ان کو مساوی سٹیٹس مل جائے گا۔ اس قانون کے مطابق اگر کوئی انہیں تنگ کرے گا تو اس کی بھی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے ایک عرصہ سے بات کی جارہی ہے۔ لیکن، مناسب قانون سازی نہ ہونے اور معاشرتی طور پر انہیں حقیر سمجھے جانے کی وجہ سے انہیں عام بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔