اس سال کے اوائل میں ’قومی اسمبلی‘ نےیہ بل کثرت رائے سے منظور کیا تھا لیکن جمعہ کو سینٹ نے اپنے اجلاس میں ایوان زیریں کے منظور کردہ مسودے میں بعض اہم ترامیم کرنے کے بعد اتفاق رائے سے اس کی منظوری دی۔
اس مسودے کو قومی اسمبلی واپس بھیجا جائے گا اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی منظوری کا عمل مکمل ہونے کے بعد صدر کے دستخط سے یہ بل فوری طور پر نافذالعمل اور اس کا اطلاق پورے پاکستان میں ہوگا۔
اس قانون کے تحت وفاقی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عدالت عظمٰی کے جج یا پھر ایک ایسے شخص کی سربراہی میں نو رکنی ’نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس‘ کی تشکیل دے جس کے پاس انسانی حقوق سے متعلق اُمور کا عملی تجربہ اور معلومات ہوں۔
کمیشن کے تمام اراکین چار سالہ مدت کے لیے تعینات کیے جائیں گے اور نامزد اراکین کی حمتی فہرست کی منظوری وزیراعظم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کریں گے۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کےارکان کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ حکومت یا خفیہ ایجنسیوں کے زیر اتنظام کسی بھی جیل یا حراستی مرکز کا دورہ کر کے وہاں موجود سزا یافتہ افراد، مقدمات کا سامنے کرنے والے یا پھر دیگر قیدیوں کی حراست کی قانونی حیثیت معلوم کرسکیں اور اس بات کا تعین کرسکیں کہ انسانی حقوق سے متعلق قوانین کی پاسداری کی جارہی ہے یا نہیں۔
لیکن کمیشن کو خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرنے کا اختیار نہیں ہوگا اور اگر اُس کے علم میں یہ بات لائی جاتی ہے کہ ان اداروں کا کوئی فعل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو وہ اس معاملے کو متعلقہ مجاز حکام کو بھیج دے گا۔
سینیٹ میں قائد ایوان نیئر حسین بخاری نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کمیشن کے قیام سے ملک میں مجموعی صورت حال بہتر ہوگی۔
سبکدوش ہونے والے جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے اس کمیشن کے قیام سے متعلق بل کی منظوری کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مرکز کی سطح پر قائم ہونے والے کمیشن کو ماڈل جان کر چاروں صوبے بھی ایسے کمیشن بنا سکیں گے۔
’’ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں فوج، انٹیلی جنس سروسز (جاسوسی کے خفیہ ادارے)، انتطامیہ اور پولیس سب پر یہ قانون لاگو ہوگا کوئی اس کے دائرے سے خارج نہیں۔ آج جو لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے وہ ہمارے لیے ناسور بن گیا ہے اور انشااللہ اب اس کو بھی قابو کیا جاسکے گا۔‘‘
اراکین پارلیمان نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے قیام سے پاکستان میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کی حوصلہ شکنی میں مدد ملے گی جبکہ عالمی برادری میں ملک کی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔
پاکستان میں ان دنوں خفیہ ایجنسیوں کی متنازع کارروائیاں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں جبکہ سپریم کورٹ میں ’’لاپتہ افراد‘‘ سے متعلق مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔ ان افراد کے رشتہ داروں اور انسانی حقوق کی عملبردار تنظیموں کا الزام ہے کہ لاپتہ افراد فوج کے انٹیلی جنس اداروں کی غیر قانونی تحویل میں ہیں اوردہشت گردی کے خلاف جنگ کو بہانہ بنا کر ان افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔