شمالی وزیرستان میں خودکش حملہ، 2 سکیورٹی اہلکار ہلاک

فائل فوٹو

شمالی وزیرستان میں چار اہلکار زخمی بھی ہوئے جب کہ اس سے قبل صوابی میں پولیس چوکی پر حملے کو ناکام بناتے ہوئے چار مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
پاکستان کے شمال مغرب میں بدھ کو دو مختلف واقعات میں سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار ہلاک جب کہ چار دہشت گرد مارے گئے۔

افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بدھ کی صبح خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی شاوا نامی علاقے میں سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی ٹکرا دی۔

دھماکے سے دو سکیورٹی اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ سات کو شدید زخم آئے۔

زخمیوں کو علاقے میں ایک فوجی اسپتال منتقل کر دیا گیا جب کہ سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کارروائی شروع کر دیں۔ واقعے کے بعد میرعلی ، ٹل روڈ کو بھی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔

شمالی وزیرستان میں طالبان شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ سیکورٹی فورسز اور تنصیبات پر حملوں کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

ایک روزہ قبل شمالی وزیرستان ہی میں ایک بم دھماکے میں مقامی طالبان کمانڈر قاری سیف الرحمن اپنے چھ ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گیا تھا، اس دھماکے کی نوعیت کے بارے میں آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

مقامی قبائلی اس دھماکے کو علاقے میں موجود مختلف شدت پسندوں گروپوں کی باہمی چپقلش کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔

قبل ازیں ضلع صوابی کے علاقے میں پولیس کی ایک چوکی پر مشتبہ شدت پسندوں نے حملہ کیا جسے اہلکاروں نے پسپا کر دیا۔

صوابی کے ضلعی پولیس افسر سجاد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ مردان اور بونیر سے ملحقہ صوابی کے سرحدی علاقے نتھیان میں ایک چوکی پر لگ بھگ 20 مشتبہ شدت پسند نے حملہ کیا۔ پولیس نے بڑی بہادری سے اس کا مقابلہ کیا اور اس میں چار دہشت گردوں کو مار گرایا۔‘‘

رواں ہفتے اس سے قبل بھی صوابی میں شدت پسندوں نے ایک پولیس چوکی پر حملہ کرکے دو اہلکاروں کو ہلاک اور چوکی کو نذر آتش کر دیا تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد شدت پسندوں نے اپنی نئی قیادت کے زیر اثر ملک میں تشدد کی کارروائیاں تیز کرنے کی دھمکی دی تھی۔

تحریک طالبان کے نئے نائب سربراہ شیخ خالد حقانی کا تعلق ضلع صوابی سے ہے اور اس نئی قیادت کے آنے کے بعد سے سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔