مذاکرات کے لیے ’طالبان کا ایجنڈا جاننا ضروری ہے‘

وفاقی وزیر داخلہ نے اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کا وقت آ گیا ہے
ملک کی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں طالبان سے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے واضح سمت کے تعین پر اتفاق کیا گیا۔

اس اجلاس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹینٹ جنرل ظہیرالسلام کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے بھی شرکت کی۔

پیر کو ہونے والے اجلاس میں سرکاری عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ طالبان شوریٰ سے جنگجوؤں کے مکمل ایجنڈے سے متعلق بات کرنے کا فیصلہ ہوا ہے تاکہ مذاکرات کی ایک واضح سمت کا تعین کیا جا سکے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ سرکاری عہدیداروں کے مطابق اجلاس میں شریک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹینٹ جنرل ظہیرالسلام کا کہنا تھا کہ حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افراد کی ناصرف نشاندہی بلکہ ان کے خلاف موثر کارروائی کی جائے گی اور اُنھیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں بھی لایا جائے گا۔

رواں ماہ وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں ملک کی سلامتی کی صورتحال پر یہ دوسرا اعلیٰ سطحی اجلاس تھا جس میں سیاسی و عسکری رہنماؤں نے طالبان شدت پسندوں سے تعطل کا شکار مذاکرات کے تناظر میں داخلی سلامتی کے امور پر بات چیت کی۔

اس سے پہلے 17 اپریل کو قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ شدت پسندوں کی طرف سے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کے اعلان کے باوجود بات چیت کے عمل کو جاری رکھے جائیں گے۔

حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سابق رکن رحیم اللہ یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں پیش رفت نا ہونا نواز انتظامیہ کے اس موقف کی بڑی وجہ ہے کہ اب طالبان اپنے مطالبات واضح کریں۔

رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کار حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان عدم اعتمادی کم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو کہ مذاکرات میں پیش رفت نا ہونے کی ایک بڑی وجہ بنی۔

’’لوگ کہہ رہے ہیں کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ پھر کبھی ایک مسئلہ اور کبھی دوسرا تو حکومت بھی بظاہر کچھ صبر کا دامن چھوڑ رہی ہے اسے لیے اب چاہتی ہے کہ چیزیں واضح ہوں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی طرف سے فراہم کردہ تقریباً 8 سو قیدیوں کی فہرست میں معلومات نا مکمل ہیں جب کہ حکومت عسکریت پسندوں کو کہہ چکی ہے کہ ’’ایک مرتبہ معاہدہ ہو جائے تو پورا قبائلی علاقہ پیس زون ہو گا اور تمام قیدی رہا کیے جائیں گے۔‘‘

رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ سلمان تاثیر کے صاحبزادے شدت پسند تنظیم اسلامک موؤمنٹ آف ازبکستان اور القاعدہ کی تحویل میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق وہ ہرجانہ اور کچھ ازبک شدت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

’’حکومت اب بھی طالبان سے کہا کہ رہی ہے کہ بھائی اگر وہ آپ کی تحویل میں نہیں ہیں مگر وہاں سارا کنٹرول آپ کے پاس ہے اور یہ لوگ آپ کے تعاون کے بغیر نہیں رہ سکتے تو آپ سے کوئی معاہدہ ہو، تو یہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ انہیں رہا کروائیں۔‘‘

ادھرموجودہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے غیررسمی رکن میجر ریٹائرڈ محمد عامر نے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بات چیت کے عمل سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چند مذاکرات کار اس عمل کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کوشش کے باوجود محمد عامر اور طالبان کے رابطہ کاروں سے رابطہ نا ہو پایا۔

تاہم رحیم اللہ یوسفرزئی کا کہنا تھا کہ میجر عامر کا اشارہ طالبان رابطہ کاروں کی طرف تھا۔

’’ہر صبح یہ (رابطہ کار) کسی نا کسی میڈیا پر انٹرویو دیتے ہیں۔ کبھی نا امیدی پھیلاتے ہیں تو کبھی امید دیتے ہیں کہ بات آگے بڑھ رہی ہے۔۔۔۔۔ انہیں رابطہ کار ہی رہنا چاہیئے۔ مذاکرات کار حکومت اور طالبان شوریٰ ہے۔‘‘

طالبان شدت پسندوں کی جانب سے فائر بندی میں رواں ماہ توسیع نا کرنے کے اعلان کے بعد ملک کے مختلف مقامات پر تشدد کی کارروائیاں دیکھنے میں آئیں جس کے بعد فوج نے بھی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

دونوں فریقین کی طرف سے بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے کے اعلان کے باوجود ابھی تک طالبان رابطہ کار عسکریت پسندوں کی شوریٰ کو بظاہر حکومتی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات پر آمادہ نہیں کر پائے۔

حکومت کی طرف سے 19 غیر عسکری طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد مزید ایک درجن قیدی رہا کرنے کا اعلان کیا گیا تاہم مذاکرات میں تعلطل کے باعث ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت اب بھی مذاکرات چاہتی ہے تاہم فائر بندی کے بغیر ’’بامعنی مذاکرات‘‘ ممکن نہیں۔