اُدھر منگل کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں وفاقی وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمٰن نے بتایا کہ طالبان کے دفتر کھولنے سے متعلق کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت منگل کو اسلام آباد میں ایک اعلٰی سطحی اجلاس ہوا جس میں ملک کی داخلی سلامتی کی مجموعی صورت حال پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت اہم سرکاری شخصیات نے شرکت کی۔
اطلاعات کے مطابق اجلاس میں طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی پر بھی بات چیت کی گئی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار اور بعض دیگر سرکاری شخصیات حالیہ بیانات میں یہ کہہ چکی ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے با اختیار اعلٰی سطحی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔
تاہم تاحال اس مجوزہ کمیٹی کا نا تو اعلان کیا گیا ہے اور نا ہی اس میں شامل ممکنہ ناموں کے بارے میں سرکاری طور پر کچھ بتایا گیا ہے۔
اُدھر منگل کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں وفاقی وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمٰن نے بتایا کہ طالبان کے دفتر کھولنے سے متعلق کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر صحت شوکت یوسفزئی سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا کہ اُنھوں نے مبینہ طور پر یہ کہا تھا کہ اگر طالبان پشاور میں سیاسی دفتر کھولنا چاہتے ہیں تو اُنھیں اس ضمن میں سہولت دی جائے گی۔
ان اطلاعات کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے بعض سینیٹرز نے ایوان میں حکومت سے اس بارے میں وضاحت طلب کی۔
وزیر مملکت بلیغ الرحمٰن نے ایوان کو بتایا کہ وفاقی حکومت تک ایسی کوئی تجویز کسی طرف سے نہیں بجھوائی گئی اور اُن کے بقول طالبان کا دفتر کھولے جانے سے متعلق خبریں صرف میڈیا ہی کے ذریعے اُن تک پہنچیں۔
اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت اہم سرکاری شخصیات نے شرکت کی۔
اطلاعات کے مطابق اجلاس میں طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی پر بھی بات چیت کی گئی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار اور بعض دیگر سرکاری شخصیات حالیہ بیانات میں یہ کہہ چکی ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے با اختیار اعلٰی سطحی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔
تاہم تاحال اس مجوزہ کمیٹی کا نا تو اعلان کیا گیا ہے اور نا ہی اس میں شامل ممکنہ ناموں کے بارے میں سرکاری طور پر کچھ بتایا گیا ہے۔
اُدھر منگل کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں وفاقی وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمٰن نے بتایا کہ طالبان کے دفتر کھولنے سے متعلق کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر صحت شوکت یوسفزئی سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا کہ اُنھوں نے مبینہ طور پر یہ کہا تھا کہ اگر طالبان پشاور میں سیاسی دفتر کھولنا چاہتے ہیں تو اُنھیں اس ضمن میں سہولت دی جائے گی۔
ان اطلاعات کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے بعض سینیٹرز نے ایوان میں حکومت سے اس بارے میں وضاحت طلب کی۔
وزیر مملکت بلیغ الرحمٰن نے ایوان کو بتایا کہ وفاقی حکومت تک ایسی کوئی تجویز کسی طرف سے نہیں بجھوائی گئی اور اُن کے بقول طالبان کا دفتر کھولے جانے سے متعلق خبریں صرف میڈیا ہی کے ذریعے اُن تک پہنچیں۔