پاکستان میں وکلاء کی ایک بڑی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے فوجی عدالتوں کے قیام اور ان کے طریقہ کار کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ملک میں نو فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جن میں دہشت گردی سے متعلق درجنوں مقدمات زیر سماعت ہیں۔
بدھ کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری چودھری محمد مقبول احمد نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کرنے کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان عدالتوں کا قیام پاکستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے اور ان کی کارروائیوں میں بنیادی انسانی حقوق کی مبینہ پامالی کا خدشہ ہے۔
"ملک میں آئینی نظام چل رہا ہے، ملک میں مارشل لا نہیں ہے، آئین معطل نہیں ہے تو فوجی عدالتوں کی قانون سازی آئین کے متصادم ہے اور سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی قانون سازی جو آئین کی تشریح کے خلاف ہے تو وہ اس کو مسترد کر سکتی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ وکلاء ملکی دفاع اور انسداد دہشت گردی کے لیے فوج کی کوششوں اور قربانیوں کے معترف ہیں لیکن فوجی عدالتوں کی کارروائی سے متعلق انھیں شدید تحفظات ہیں۔
ملک میں وکلاء کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ان عدالتوں کی مخالفت کرتی آرہی ہیں جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کو درپیش مخصوص حالات میں مخصوص مدت کے لیے ان عدالتوں کا قیام ناگزیر تھا۔
حکومتی عہدیداروں کے مطابق ان عدالتوں میں پیش ہونے والے ملزمان کو قانون کے مطابق اپنی صفائی کا پورا موقع ملے گا۔
رواں ماہ کے اوائل میں ہی فوجی عدالتوں سے چھ مجرموں کو موت کی سزا سنائی گئی تھی اور فوج کے ترجمان کے بقول یہ مجرمان دہشت گردی، قتل، خودکش بم دھماکوں، انسانی جانوں اور املاک کو نقصان پہنچانے کے جرائم میں ملوث تھے۔
سزا پانے والے مجرموں کے نام یا دیگر تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں تھیں لیکن یہ بتایا گیا تھا کہ یہ مجرم سزا کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
فوجی عدالتوں کی طرف سے مختلف مقدمات میں سنائی گئی سزائے موت پر بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہہ کر تنقید کی گئی کہ مجرموں اور مقدمات کی تفصیلات جاری نہ کرنے کی وجہ سے ان عدالتوں کی کارروائیوں سے متعلق مزید سوالوں نے جنم لیا ہے۔
حکومتی عہدیداروں کا موقف رہا ہے کہ عدالتوں میں پہلے ہی بے شمار مقدمات زیر التوا ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردی کے مقدمات میں عدالتی کارروائی بھی طوالت کا شکار ہو جاتی ہے جب کہ فوجی عدالتوں میں صرف ان ہی مقدمات پر سماعت کے ذریعے جزا اور سزا کا عمل وقت ضائع کیے بغیر وقوع پذیر ہو سکے گا۔
لیکن اکثر قانون دانوں کی رائے میں اگر پہلے سے موجود عدالتی نظام اور استغاثہ کو موثر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تو فوجی عدالتوں کے قیام کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔