پاکستان نے افغانستان سے امریکی افواج کے فوری انخلا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی خواہش ہے کہ جب تک افغانستان میں حالات بہتر نہیں ہوجاتے، اتحادی افواج وہاں موجود رہیں۔
جمعرات کو نیوز بریفنگ کے دوران افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفترِ خارجہ محمد فیصل نے کہا کہ "پاکستان یہ چاہتا ہے کہ جب تک افغانستان میں حالات مستحکم نہیں ہو جاتے اور معاملات بہتر نہیں ہو جاتے، امریکی اور اتحادی فورسز واپس نہ جائیں۔"
ترجمان کے بقول، "جب معاملات ٹھیک ہوجائیں، اس کے بعد (فورسز واپس) جائیں۔ جب پچھلی دفعہ سوویت یونین کی فورسز کا انخلا ہوا تھا تو اس کے بعد ایک افراتفری کی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔"
محمد فیصل نے کہا کہ یہ ایک بڑی مشکل صورتِ حال تھی جس کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے بقول "ہم نہیں چاہتے کہ دوبارہ ویسی ہی کوئی صورتِ حال ہو۔"
جب ترجمان سے استفسار کیا گیا کہ افغان طالبان تو افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں، تو انہوں نے اس پر براہِ راست تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں غیر ملکی فورسز کی موجودگی اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان کا یہ مؤقف ہے کہ "جو مقصد لے کر وہ 17 سال سے وہاں موجود ہیں اسے حاصل کر لیں اور اس کے بعد چلے جائیں۔ بجائے اس کے کہ وہ فوراً چلے جائیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
پریس بریفنگ کے دوران ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ دوسرے اہم فریقوں نے بھی پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے کہ افغان تنازع کا حل افغانوں کی قیادت اور سرپرستی میں ہونے والے بات چیت ہی سے ممکن ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کی زیرِ قیادت ایک وفد نے افغانستان، پاکستان، قطر اور سعودی عرب کا دورہ کیا ہے جس میں افغانستان میں جاری تنازع کے مذاکرات کے ذریعے حل کے امکانات پر بات کی گئی۔
جمعرات کو بریفنگ کے دوران ترجمان دفترِ خارجہ نے زلمے خلیل زاد کے دورے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان مذاکرات کے ذریعے افغان تنازع کا حل تلاش کرنے کی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔
فیصل نے کہا کہ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ افغان تنازع کو کوئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ اس تنازع کا سب سے بہتر اور قابلِ عمل حل افغانوں کی قیادت اور سرپرستی میں سیاسی عمل کی ذریعے ہی ممکن ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کے لیے یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ دیگر اہم فریق بھی اس بات کے قائل ہو کر افغانستان میں امن و مصالحت کا عمل شروع کرنے کے امکانات تلاش کر رہے ہیں۔
امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کا خطے کا حالیہ دورہ بھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کا حصہ تھا۔
اس دورے کے دوران زلمے خلیل زاد نے قطر میں افغان طالبان کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی تھی۔
اگرچہ امریکہ نے اس ملاقات کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔
تاہم اس کے ساتھ امریکہ پاکستان پر بھی زور دے رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا کردارا دا کرے۔
پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ ماضی کی نسبت کم ہوگیا ہے۔