امریکہ سے انٹیلی جنس تعاون عملاً موجود نہیں: خرم دستگیر

خرم دستگیر نے کہا ہے کہ یہ توقع کرنا کہ وزارت دفاع، امریکی سفارت خانے کو ایک نوٹس کے ذریعے مطلع کرے گی کہ اب ہم تعاون روک رہے ہیں، ’’ایسا نہیں ہو گا، کیوں کہ ایسا کسی نوٹس کے ذریعے شروع نہیں کیا گیا تھا۔‘‘

پاکستان کے وزیرِ دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس وقت عملاً سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون موجود نہیں۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں خرم دستگیر نے کہا ہے کہ یہ توقع کرنا کہ وزارت دفاع، امریکی سفارت خانے کو ایک نوٹس کے ذریعے مطلع کرے گی کہ اب ہم تعاون روک رہے ہیں، ’’ایسا نہیں ہو گا، کیوں کہ ایسا کسی نوٹس کے ذریعے شروع نہیں کیا گیا تھا۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’’یہ تعاون کسی تحریری معاہدے کی بنیاد پر شروع نہیں کیا گیا تھا۔ یہ 2001ء میں جب نائن الیون کے (دہشت گرد حملے) ہوئے، اس کے فوراً بعد کیوںکہ پاکستان میں ایک فوجی حکومت تھی انھوں نے بغیر کسی تحریری معاہدے کے اس معاملے کو شروع کر دیا۔ اڈے بھی دے دیے۔ ایئر لائنز بھی دے دیں۔ جو زمینی راہداری ہے وہ بھی دے دی۔ تو بہت بڑا تعاون پاکستان نے کیا جس میں انٹیلی جنس تعاون شامل تھا۔‘‘

خرم دستگیر نے رواں ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکی حکام کے پاکستان مخالف بیانات کے بعد امریکہ سے انٹیلی جنس اور دفاع کے شعبے میں تعاون معطل کر دیا گیا ہے جس کے بعد اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اُسے پاکستان کی طرف سے اس بارے کسی طرح کی کوئی باضابطہ اطلاع نہیں ملی۔

جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیرِ دفاع نے کہا کہ تعاون کا تعین دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت پر ہو گا۔

پاکستانی وزیر دفاع نے اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات کی نوعیت کے لیے ’’کولڈ پیس‘‘ یا ’’سرد امن‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔

اُنھوں نے امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور ایلس ویلز کے رواں ہفتے ہونے والے دورۂ پاکستان کو سراہا۔

خرم دستگیر کا کہنا تھا، ’’کیونکہ سفیر ایلس ویلز نے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گفتگو شروع کی ہے تو ہم نے بھی ایسا کیا۔ بات چیت کے لیے ہم ہمیشہ تیار ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کا ایک مشترکہ مفاد ہے جو کہ ایک مستحکم اور جمہوری افغانستان ہے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تمام معاملات پر کھل کر بات چیت ہونی چاہیے۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی طالبان نے سرحد پار افغانستان میں پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جہاں سے وہ اپنے ملک میں حملے کرتے ہیں۔

اپنی گفتگو میں خرم دستگیر نے عندیہ دیا کہ اگر سرحد کی دوسری جانب پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کی گئی تو امریکہ سے تعاون کی سطح بڑھ سکتی ہے۔

پاکستان میں افغان طالبان کی پناہ گاہوں پر وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان اُنھیں اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے گا۔

پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ پر افغانستان کی حکومت کی طرف سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہونا چاہیے تھا۔

افغانستان کے خدشات پر خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اس کے دائرے کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

افغان طالبان کے ایک وفد کے رواں ہفتے دورۂ پاکستان کی اطلاعات کے بارے میں وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ ’’مقصد یہی ہے کہ کسی طرح افغانستان کی اندرونی سیاسی مفاہمت میں اگر پاکستان کوئی مفاہمت کرا سکتا ہے تو ہم وہ کریں گے۔‘‘

واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز پر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ 15 برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو 33 ارب ڈالر دیے اور کے بقول اس کے بدلے صرف ’’جھوٹ اور دھوکا‘‘ ہی ملا۔

صدر ٹرمپ کے اس پیغام کے بعد امریکہ کی طرف سے پاکستان کی سکیورٹی امداد بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ امداد اس وقت تک بحال نہیں ہو گی جب تک پاکستان اپنی سرزمین پر موجود تمام دہشت گردوں کے خلاف مؤثر اور واضح کارروائی نہیں کرتا۔

پاکستانی حکام البتہ یہ کہتے رہے ہیں کہ نہ صرف ملک میں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی گئی بلکہ خطے سے دہشت گردی کی خاتمے میں امریکہ سے بھرپور تعاون کیا جاتا رہا ہے۔

وی او اے سے بات چیت میں خرم دستگیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے خطے سے القاعدہ کے خاتمے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور اُن کے بقول اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان انٹیلی جنس تعاون بہت اہم تھا۔