پاکستان کے وزیر مملکت برائے مذہبی اُمور امین الحسنات نے جمعہ کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کو بتایا کہ بین مذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے دو الگ الگ کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔
جب کہ اس کے علاوہ وزیر مملکت کے بقول ایک ایسی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو کہ دینی مدارس میں پڑھانے جانے والینصابی کتب کا جائزہ لے کر اُنھیں منافرت پر مبنی مواد سے پاک کرے گی۔
یہ اقدامات ایسے وقت کیے گئے جب مختلف حلقوں کی جانب سے ملک میں بین الامذہب اور بین المسالک رواداری بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیر مملکت امین الحسنات نے کہا کہ مختلف عقائد کے ماننے والوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے علما اور مشائخ کونسل تشکیل دی گئی ہے۔
’’ہم نے یہ کوشش کی ہے (دیوبندی، شیعہ، بریلوی، اہل حدیث) چاروں مسالک کو اکٹھا کریں اور اس میںکو کونسل تشکیل دی گئی ہے اُس میں جتنے ہمارے مذہبی مدارس کے وفاق ہیں اُن کو شامل کیا ہے۔‘‘
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کی جانچ بھی کی جا رہی ہے تاکہ اُس میں شامل ایسے مواد کو ختم کیا جائے جو باہمی اتفاق کے لیے نقصان دہ ہو۔
پاکستان میں اگرچہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے پہلے بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں تاہم اب ملک میں آباد مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ’قومی کمیشن برائے مائناورٹیز‘ بنایا گیا ہے۔
دریں جمعہ کو سینیٹ نے ترمیمی بل برائے’کریمنل لاز 2016‘ بھی متقفہ طور پر منظور کیا ہے۔ یہ مسودہ قانون وزیر مملکت برائے اُمور داخلہب بلیغ الرحمٰن کی طرف سے پیش کیا گیا۔
اس مسودہ قانون کے تحت مذہبی و لسانی منافرت پھیلانے کے لیے غلط معلومات فراہم کرنے اور جبری شادیوں میں ملوث افراد کے لیے سزاؤں میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔