وزیراعظم کے خطاب کا محور خطے کے مسائل تھے: تجزیہ کار

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں جمعرات کو کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا۔

پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلے خطاب کا محور خطے سے متعلق اُمور اور اُن کے بارے میں پاکستانی حکومت کی پالیسی تھی۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں جمعرات کو کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا۔

جب کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق پاکستانی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ کشمیر سے متعلق اپنی قرارداد پر عمل درآمد کے لیے ایک خصوصی مندوب یا ایلچی بھی مقرر کرے۔

تجزیہ کاروں کے بقول اگرچہ ان معاملات پر پاکستان کی حکومت کا موقف مسلسل یہی رہا ہے لیکن اُن کے بقول اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس موقف کا اعادہ اہم ہے۔

سابق سفیر علی سرور نقوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان پہلے بھی یہ کہتا رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔

’’ایک تو افغانستان میں فوجی طاقت استعمال کرنا بے سود ہے اور دوسرے یہ کہ اگر افغانستان کا مسئلہ حل کرنا ہے اور وہاں امن اور استحکام لانا ہے تو اس کے لیے امن پراسس شروع ہونا چاہیے۔ جب کہ دہشت گردی کے تناظر میں (پاکستانی وزیراعظم) نے یہ کہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر افغانستان کی لڑائی نہیں ہونے دے رہا اور پاکستان کی سرزمین افغانستان کے مسئلے کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔‘‘

سابق سفارت کار عزیز احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کا یہ موقف رہا کہ ملک میں امن کا حصول اُسی صورت ممکن ہے جب پڑوسی ملک افغانستان میں امن و استحکام ہو۔

اُن کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دنیا بھر کے ممالک کی قیادت شرکت کرتی ہے اور اس موقع پر پاکستانی قیادت کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے رکھے۔

عزیز احمد خان کے بقول پاکستان نے افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی کے بارے میں دنیا کو ایک بار پھر بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان پڑوسی ملک میں امن چاہتا ہے۔

’’پاکستان (افغانستان میں امن کے لیے) کوشش بھی کرتا رہا ہے اور میرا خیال ہے اس کا جاری رہنا ٹھیک رہے گا۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ جنگ افغانستان میں بھی ہو یا اس کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں۔‘‘

عزیز احمد خان بھارت میں بھی پاکستان کے ہائی کمشنر رہ چکے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کی راہ تلاش کی جائے۔

’’کشمیر کلیدی مسئلہ ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان۔۔۔ جب تک اس کا ایک پرامن طریقے کے ساتھ خاطر خواہ حل نہیں ہو گا، اس خطے میں امن نہیں آ سکتا اور اس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔‘‘

پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ اُن کا ملک بھارت سے مذاکرات چاہتا ہے لیکن اُنھوں اس کے لیے یہ شرط بھی عائد کی کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی معاونت کرنے والے عناصر کی معاونت بند کرے۔

بھارت پاکستان میں مداخلت کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔