صوبائی وزیراطلاعات کا کہنا ہے کہ آئین بنانے والے پارلیمنٹیرین ہیں اس کی تشریح بھی پارلیمنٹیرین ہی کریں گے۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارلیمان کے قانون سازی کے آئینی اختیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے نئے قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر منسوخ کرنے کے فیصلے کے بعد صورت حال کا جائزہ لینے اور مستقبل کا لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے جمعہ کی شب صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس منعقد ہوا۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس میں اس عزم کا اظہارکیا گیا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے حق کو برقرار رکھا جائے گا اور اس پر کسی سمجھوتے کی اجازت نہیں دی جائے گی چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
صوبہ سندھ کے وزیراطلاعات شرجیل میمن نے ہفتہ کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ اداروں کے درمیان تصادم نا ہو۔
’’پیپلز پارٹی کو آج بھی انتقامی کارروائیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے آج بھی سازشوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔۔۔ لیکن پیپلز پارٹی کے ورکز اپنی قیادت کے کہنے پر صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ ہم تصادم نہیں چاہتے، ہم آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ آئین بنانے والے پارلیمنٹرین ہیں اس کی تشریچ بھی پارلیمنٹرین ہی کریں گے۔‘‘
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل ممین نے کہا کہ صدر پاکستان کو آئین کے تحت کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
’’ہم نے کہا صدر پاکستان کو استثنیٰ حاصل ہے آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت، اگر کسی کو وہ استثنیٰ پسند نہیں تو اسمبلی سے اسے ختم کراؤ۔ جب تک استثنیٰ موجود ہے تب تک ہم خط نہیں لکھ سکتے۔‘‘
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی اُمور فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے توہین عدالت کے نئے قانون کی منسوخی کے بعد حکومت بعض ترامیم کے ساتھ اس قانون کو دوبارہ پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کرے گی۔
’’یہ جو توہین عدالت کا قانون ہے یہ نیا آئے گا اور اس میں ضروری ترامیم کی جائیں گی۔‘‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ عدلیہ کے اعتراضات کو دور کیے بغیر اگر نیا قانون منظور کیا گیا تو اس سے حکومت اور عدلیہ کے مابین تناؤ میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
’’ظاہر ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ نے پورے قانون کو کالعدم قرار دیا ہے، پارلیمنٹ کے منہ پہ طمانچہ تو ہے ایک قسم کا۔ یہ بات درست ہے کہ وہ قانون بڑی عجلت میں بنایا گیا تھا بعض شقیں ایسی تھیں جو بنیادی حقوق سے متصادم تھیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلےکے بعد صورت حال مجھے کچھ اچھی نظر نہیں آتی۔‘‘
سپریم کورٹ کی جانب سے منسوخ کیے گئے متنازع قانون کے تحت وزیرِاعظم اور وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرائے اعلیٰ پر سرکاری فرائص کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں کے سلسلے میں اُن پر توہین عدالت کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔
اس قانون کو متعارف کرانے کا مقصد بظاہر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کی ممکنہ کارروائی سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف بیرون ملک مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 8 اگست تک کی حتمی مہلت دے رکھی ہے اور ایسا نا کرنے پر انھیں توہین عدالت کے جرم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے نئے قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر منسوخ کرنے کے فیصلے کے بعد صورت حال کا جائزہ لینے اور مستقبل کا لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے جمعہ کی شب صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس منعقد ہوا۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس میں اس عزم کا اظہارکیا گیا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے حق کو برقرار رکھا جائے گا اور اس پر کسی سمجھوتے کی اجازت نہیں دی جائے گی چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
صوبہ سندھ کے وزیراطلاعات شرجیل میمن نے ہفتہ کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ اداروں کے درمیان تصادم نا ہو۔
’’پیپلز پارٹی کو آج بھی انتقامی کارروائیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے آج بھی سازشوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔۔۔ لیکن پیپلز پارٹی کے ورکز اپنی قیادت کے کہنے پر صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ ہم تصادم نہیں چاہتے، ہم آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ آئین بنانے والے پارلیمنٹرین ہیں اس کی تشریچ بھی پارلیمنٹرین ہی کریں گے۔‘‘
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل ممین نے کہا کہ صدر پاکستان کو آئین کے تحت کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
’’ہم نے کہا صدر پاکستان کو استثنیٰ حاصل ہے آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت، اگر کسی کو وہ استثنیٰ پسند نہیں تو اسمبلی سے اسے ختم کراؤ۔ جب تک استثنیٰ موجود ہے تب تک ہم خط نہیں لکھ سکتے۔‘‘
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی اُمور فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے توہین عدالت کے نئے قانون کی منسوخی کے بعد حکومت بعض ترامیم کے ساتھ اس قانون کو دوبارہ پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کرے گی۔
’’یہ جو توہین عدالت کا قانون ہے یہ نیا آئے گا اور اس میں ضروری ترامیم کی جائیں گی۔‘‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ عدلیہ کے اعتراضات کو دور کیے بغیر اگر نیا قانون منظور کیا گیا تو اس سے حکومت اور عدلیہ کے مابین تناؤ میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
’’ظاہر ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ نے پورے قانون کو کالعدم قرار دیا ہے، پارلیمنٹ کے منہ پہ طمانچہ تو ہے ایک قسم کا۔ یہ بات درست ہے کہ وہ قانون بڑی عجلت میں بنایا گیا تھا بعض شقیں ایسی تھیں جو بنیادی حقوق سے متصادم تھیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلےکے بعد صورت حال مجھے کچھ اچھی نظر نہیں آتی۔‘‘
سپریم کورٹ کی جانب سے منسوخ کیے گئے متنازع قانون کے تحت وزیرِاعظم اور وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرائے اعلیٰ پر سرکاری فرائص کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں کے سلسلے میں اُن پر توہین عدالت کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔
اس قانون کو متعارف کرانے کا مقصد بظاہر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کی ممکنہ کارروائی سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف بیرون ملک مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 8 اگست تک کی حتمی مہلت دے رکھی ہے اور ایسا نا کرنے پر انھیں توہین عدالت کے جرم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔