فاٹا کی حیثیت پر سیاسی بحث میں تیزی

فاٹا کی حیثیت پر سیاسی بحث میں تیزی

پاکستان میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے یا پھر اُنھیں ایک نیا صوبہ بنانے پر قبائلی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منقسم رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مگر تمام فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ فاٹا کی پسماندگی دور کرنے اور اقتصادی بہتری کے بغیر وہاں شدت پسند رجحانات کی حوصلہ شکنی کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوں گی۔

فاٹا کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی بحث میں یہ خیال غالب دیکھائی دیتا ہے کہ خود قبائلی عوام کو اس بارے میں فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے جس کا بہترین حل استصوابِ رائے یعنی ریفرنڈم کا انعقاد ہوگا۔

خیبر پختون خواہ میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) طویل عرصے سے فاٹا کی سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز کو صوبے میں ضم کرنے کی مہم چلاتی آئی ہے۔

2008ء کے انتخابات میں بھی اے این پی نے اپنے منشور میں فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے کا معاملہ شامل کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام قبائلی علاقوں میں تشدد کے خاتمے اور پسماندگی دور کرنے کی کوششوں میں مدد گار ثابت ہوگا۔

اے این پی کے ایک صوبائی رہنما ارباب طاہر کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نے قبائلی رہنماؤں کے ساتھ مفصل مشاورت کا عمل شروع کر رکھا ہے جب کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اپنے طور پر بھی پشاور اور صوبے کے دیگر شہروں میں اس موضوع پر خصوصی سیمینار منعقد کرائے جا رہے ہیں۔

’’میرے خیال میں فاٹا کی 50 فیصد آبادی خیبر پختون خواہ میں رہتی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے اُنھیں صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔‘‘

قومی اسمبلی میں شمالی وزیرستان کی نمائندگی کرنے والے قبائلی رہنما کامران وزیر بھی استصوابِ رائے کی حمایت کرتے ہیں۔

’’یہ قبائلی عوام کا حق ہے کہ اُن سے پوچھا جائے اور ان کی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔‘‘

لیکن مذہبی جماعتوں بالخصوص جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ اور جماعت اسلامی اس الحاق کی مخالف ہیں کیونکہ ان دونوں جماعتوں کا فاٹا میں ووٹ بینک دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ خود وہاں کے قبائلی عوام کریں۔

جماعت اسلامی کے مرکزی نائب صدر سراج الحق کے بقول مقامی قبائل برطانوی راج میں متعارف کرائے گئے ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) کے خاتمے اور شرعی نظام کے نفاذ کے حق میں ہیں۔

فاٹا کی حیثیت پر سیاسی بحث میں تیزی

’’شریعت پر لوگوں کا ایمان بھی ہے، عقیدہ بھی ہے اور یہاں کے لوگ اس نظام کے عادی بھی ہیں۔ اگر پاکستان میں مروجہ نظام یہاں نافذ بھی کیا جائے تو کراچی سے چترال تک لوگ اس نظام سے پہلے ہی تنگ ہیں، جو (نظام) وہاں کے لوگوں کے انصاف و عدل کے مسائل حل نہیں کر سکا وہ یہاں کیسے موثر ہوگا۔‘‘

صوبائی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے نائب پارلیمانی لیڈر مفتی کفایت علی کہتے ہیں کہ فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانا ہی اس مسئلے کا بہترین حل ہے تاہم اُس وقت تک بعض ناگزیر عبوری اقدمات سے حالات کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔

’’قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ بننا چاہیئے جس کے لیے (درکار) تمام صلاحیتیں ان کے اندر موجود ہیں۔ لیکن جب تک وہ صوبہ نہیں بنتے … ان کو اپنے لیے صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب کرنے کا اختیار دے دینا چاہیئے اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے ساتھ ان کا الحاق ہو۔‘‘