آئینی ماہرین کے مطابق اس سوال کا زیادہ ترانحصار سپریم کورٹ کے رویئے پر ہے کہ وہ اس کیس کو کتنا وقت دیتی ہے۔ ابتدائی تاثر یہ ہے کہ عدالت اس مرتبہ وزیراعظم کو بھر پور موقع دینا چاہتی ہے
سپریم کورٹ کی جانب سے این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی طلبی سے سیاسی ماہرین، مبصرین اورسیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے درمیان ایک مرتبہ پھریہ بحث چھڑ گئی ہے کہ راجہ کی رخصتی بھی قریب ہے یا پھر پیپلزپارٹی”وقت “ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دوسرے جیالے کو پانچ سال کی نااہلی سے بچا لے گی ۔
این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر صدر زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے سے متعلق خط نہ لکھنے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو ستائیس اگست کو طلب کرلیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کواسی مقدمے میں نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے تھے بلکہ سپریم کورٹ نے ان کیلئے پانچ سال تک پارلیمنٹ کے دروازے بھی بند کر دئیے ۔
اس اہم موضوع پر وی او اے کے نمائندے نے مختلف تجزیہ نگاروں اور مبصرین سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی ۔ ان کے نزدیک اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا راجہ پرویز اشرف بھی وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہو جائیں گے ؟
آئینی ماہرین کے مطابق اس سوال کا زیادہ ترانحصار سپریم کورٹ کے رویے پر ہے کہ وہ اس کیس کو کتنا وقت دیتی ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کو سولہ جنوری کی سماعت پر عدالت نے 19جنوری کو طلب کیا تھا ، یعنی انہیں صرف تین دن کا وقت دیا تھا جبکہ راجہ پرویز اشرف کو 18 دن کا نوٹس ملا ہے۔ ابتدائی تاثر یہی ہے کہ عدالت اس مرتبہ وزیراعظم کو بھر پور موقع دینا چاہتی ہے ۔
مبصرین کے مطابق اگر سپریم کورٹ یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے آرڈر کو فوری طور پر راجہ پرویز اشرف پر لاگو کردیتی ہے اور یہ جواز دیا جاتا ہے کہ یہ کیس بھی گیلانی کیس سے مختلف نہیں تو فیصلہ بھی ویسا ہی ہو گا توپھر ان کا بچاؤ انتہائی مشکل ہو جائے گا۔تاہم اگر اس کیس کا از سر نو جائزہ لیا جاتا ہے تو پھر راجہ پرویز اشرف کے بچاؤ کا واضح امکان نظر آ رہا ہے ۔
یوسف رضا گیلانی کے کیس کی سماعت تقریبا تین ماہ اور دس دن تک جاری رہی ۔اگر اتنا ہی وقت راجہ پرویز اشرف کو مل جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کیس کا فیصلہ نومبر میں متوقع ہے جبکہ پیپلزپارٹی وعدہ کی قیادت وقت مقررہ پر انتخابات کا وعدہ کر رہی ہے یعنی مارچ دو ہزار تیرہ میں ہونگے ۔ آئین کے مطابق چھ ماہ قبل یعنی اکتوبر میں نگراں حکومت کا قیام عمل میں آ جائے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ راجہ پرویز اشرف کی نا اہلی سے قبل ہی نگراں وزیراعظم ان کی جگہ لے لے گا ۔
اس کے علاوہ یوسف رضا گیلانی نے توہین عدالت فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر نہیں کی تھی لہذا اگر پرویز اشرف اپیل دائر کرتے ہیں تو انہیں مزید وقت بھی مل سکتا ہے ۔ دوسری جانب بدھ کو پیپلزپارٹی نے 12جولائی کا وہ فیصلہ چیلنج کر دیا ہے جس میں راجہ پرویز اشرف کو خط لکھنے کا حکم دیا گیاتھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ توہین عدالت قانون کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی چیلنج ہو چکا ہے ۔
بعض قانونی ماہرین کے مطابق مذکورہ دونوں فیصلے چیلنج ہونے کے بعد اب سپریم کورٹ کیلئے لازم ہے کہ27 اگست سے قبل وہ ان دونوں درخواستوں کو نمٹا دے بصورت دیگر راجہ پرویز اشرف کو مزید وقت بھی مل سکتا ہے ۔ اس تمام تر تناظر میں یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کو پیپلزپارٹی قائل کر لیتی ہے کہ گیلانی اور راجہ دو الگ الگ کیسز ہیں اور راجہ کیس کی از سر نو سماعت ہوتی ہے تو پھر وقت مقررہ پر انتخابات کی صورت میں پرویز اشرف کے بچاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بدھ کو سپریم کورٹ کی جانب سے طلبی کے بعد اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی اجلاس سے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ آئندہ عام انتخابات قریب ہیں اور حکومت شفاف انتخابات کو ہر صورت یقینی بنائے گی ۔اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی بھی مقررہ وقت پر انتخابات کے ذریعے نہ صرف اپنی ساکھ بہتر بنانا چاہتی بلکہ ایک اور جیالے کو پانچ سال کیلئے نا اہل ہونے سے بھی بچانا چاہتی ہے ۔
این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر صدر زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے سے متعلق خط نہ لکھنے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو ستائیس اگست کو طلب کرلیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کواسی مقدمے میں نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے تھے بلکہ سپریم کورٹ نے ان کیلئے پانچ سال تک پارلیمنٹ کے دروازے بھی بند کر دئیے ۔
اس اہم موضوع پر وی او اے کے نمائندے نے مختلف تجزیہ نگاروں اور مبصرین سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی ۔ ان کے نزدیک اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا راجہ پرویز اشرف بھی وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہو جائیں گے ؟
آئینی ماہرین کے مطابق اس سوال کا زیادہ ترانحصار سپریم کورٹ کے رویے پر ہے کہ وہ اس کیس کو کتنا وقت دیتی ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کو سولہ جنوری کی سماعت پر عدالت نے 19جنوری کو طلب کیا تھا ، یعنی انہیں صرف تین دن کا وقت دیا تھا جبکہ راجہ پرویز اشرف کو 18 دن کا نوٹس ملا ہے۔ ابتدائی تاثر یہی ہے کہ عدالت اس مرتبہ وزیراعظم کو بھر پور موقع دینا چاہتی ہے ۔
مبصرین کے مطابق اگر سپریم کورٹ یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے آرڈر کو فوری طور پر راجہ پرویز اشرف پر لاگو کردیتی ہے اور یہ جواز دیا جاتا ہے کہ یہ کیس بھی گیلانی کیس سے مختلف نہیں تو فیصلہ بھی ویسا ہی ہو گا توپھر ان کا بچاؤ انتہائی مشکل ہو جائے گا۔تاہم اگر اس کیس کا از سر نو جائزہ لیا جاتا ہے تو پھر راجہ پرویز اشرف کے بچاؤ کا واضح امکان نظر آ رہا ہے ۔
یوسف رضا گیلانی کے کیس کی سماعت تقریبا تین ماہ اور دس دن تک جاری رہی ۔اگر اتنا ہی وقت راجہ پرویز اشرف کو مل جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کیس کا فیصلہ نومبر میں متوقع ہے جبکہ پیپلزپارٹی وعدہ کی قیادت وقت مقررہ پر انتخابات کا وعدہ کر رہی ہے یعنی مارچ دو ہزار تیرہ میں ہونگے ۔ آئین کے مطابق چھ ماہ قبل یعنی اکتوبر میں نگراں حکومت کا قیام عمل میں آ جائے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ راجہ پرویز اشرف کی نا اہلی سے قبل ہی نگراں وزیراعظم ان کی جگہ لے لے گا ۔
اس کے علاوہ یوسف رضا گیلانی نے توہین عدالت فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر نہیں کی تھی لہذا اگر پرویز اشرف اپیل دائر کرتے ہیں تو انہیں مزید وقت بھی مل سکتا ہے ۔ دوسری جانب بدھ کو پیپلزپارٹی نے 12جولائی کا وہ فیصلہ چیلنج کر دیا ہے جس میں راجہ پرویز اشرف کو خط لکھنے کا حکم دیا گیاتھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ توہین عدالت قانون کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی چیلنج ہو چکا ہے ۔
بعض قانونی ماہرین کے مطابق مذکورہ دونوں فیصلے چیلنج ہونے کے بعد اب سپریم کورٹ کیلئے لازم ہے کہ27 اگست سے قبل وہ ان دونوں درخواستوں کو نمٹا دے بصورت دیگر راجہ پرویز اشرف کو مزید وقت بھی مل سکتا ہے ۔ اس تمام تر تناظر میں یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کو پیپلزپارٹی قائل کر لیتی ہے کہ گیلانی اور راجہ دو الگ الگ کیسز ہیں اور راجہ کیس کی از سر نو سماعت ہوتی ہے تو پھر وقت مقررہ پر انتخابات کی صورت میں پرویز اشرف کے بچاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بدھ کو سپریم کورٹ کی جانب سے طلبی کے بعد اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی اجلاس سے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ آئندہ عام انتخابات قریب ہیں اور حکومت شفاف انتخابات کو ہر صورت یقینی بنائے گی ۔اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی بھی مقررہ وقت پر انتخابات کے ذریعے نہ صرف اپنی ساکھ بہتر بنانا چاہتی بلکہ ایک اور جیالے کو پانچ سال کیلئے نا اہل ہونے سے بھی بچانا چاہتی ہے ۔