صدارتی انتخاب: سپریم کورٹ سے تاریخ تبدیل کرنے کی استدعا

آئین کے تحت موجودہ صدر کے عہدے کی معیاد کے ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 روز یا کم از کم 30 روز پہلے الیکشن کمیشن نے نئے انتخابات کروانے ہوتے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے حکومت کی درخواست کے مسترد ہونے کے بعد حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عدالت عظمیٰ سے منگل کو استدعا کی کہ وہ کمیشن کو صدارتی انتخابات اعلان کردہ تاریخ سے ایک ہفتے پہلے کروانے کی ہدایت جاری کرے۔

سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے اپنی دائر کردہ درخواست میں کہا ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں مذہبی مصروفیات کے باعث چند قانون سازوں کی 6 اگست کو ہونے والے انتخابات میں شرکت ممکن نہیں اس لئے صدارتی الیکشن کا انعقاد 30 جولائی کو کیا جائے۔

ایک روز قبل الیکشن کمیشن نے تحریری طور پر حکومت کو آگاہ کیا کہ صدارتی انتخابات میں تبدیلی ممکن نہیں۔ آئین کے تحت موجودہ صدر کے عہدے کی معیاد کے ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 روز یا کم از کم 30 روز پہلے الیکشن کمیشن نے نئے انتخابات کروانے ہوتے ہیں۔

ادھر حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے صدارتی امیدوار سینیٹر رضا ربانی کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کردیے ہیں اور منگل کو اسلام آباد میں ایک اجلاس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔

اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ رضا ربانی کو متفقہ صدارتی امیدوار بنانے کے لیے حکمران جماعت سے بھی بات چیت کی جائے گی۔

’’صدر پارلیمان کا حصہ ہوتے ہیں تو اس کے لیے ایک بہترین پارلیمنٹیرین کا ہونا ضروری ہے جسے تمام طریقہ کار سے آگاہی ہو۔ آئینی ترامیم ہوں یا امریکہ سے تعلقات استوار کرنے سے متعلق نکات، یا ریمن ڈیوس کا معاملہ یا بلوچستان سے متعلق پیکج تمام معاملات ربانی صاحب کے سپرد کیے گئے۔ وہ نا صرف بہترین قانون ساز ہیں بلکہ اتفاق رائے پیدا کرنے والے بھی ہیں۔‘‘


نواز لیگ کی طرف سے صدارتی امیدواروں کے لیے خارجہ امور اور قومی سلامتی پر وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز، سابق گورنر سندھ ممنون حسین اور سابق جج سعید الزماں صدیقی کے نام سامنے آئیں ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے سینیٹر سعید مندوخیل اور پاکستان تحریک انصاف نے سابق جج وجیہہ الدین صدیقی نامزد کیے گئے ہیں۔

سابق وزیراعظم گیلانی عمران خان سے پی پی پی کے امیدوار کی حمایت کی امید رکھتے ہیں۔

’’وہ (پی ٹی آئی والے) پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ عمران خان قابل فہم شخص ہیں جب دونوں امیدوار سامنے آئیں گے تو ان کا جھکاؤ حکومت کی بجائے حزب اختلاف کی جانب ہوگا۔‘‘

الیکشن کمیشن کے جاری شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی بدھ کو جمع کروائے جائیں گے جبکہ 29 جولائی تک واپس لیے جاسکے گے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکمران جماعت نواز لیگ کی طرف سے بھی حالیہ دنوں میں اپنے صدارتی امیدوار کی حمایت کے لیے پی پی پی سے رجوع کیا گیا جس پر سابقہ حکمران جماعت نے معذرت کرلی تھی۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر افراسیاب خٹک ایک متفقہ صدارتی امیدوار کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے جہوریت مستحکم ہوگی۔

’’ہم نے حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے نواز شریف صاحب کو ووٹ دیا تھا کیونکہ ہم اتفاق کا پیغام دینا چاہتے تھے۔ ایسے مواقع آتے ہیں کہ آپ کو پارٹی لائن سے اوپر ہوکر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جہوری نظام کو ابھی بہت سارے چیلنجز ہیں اور اس کے لئے سب کو ملنا ہوگا۔‘‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کو وفاق کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان میں اکثریت حاصل ہے اور اسی طرح قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کو سینٹ اور صوبہ سندھ میں۔ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کی صوبہ خیبر پختونخواہ اسمبلی میں سب سے زیادہ نشتیں ہیں۔