پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر، مشاہد اللہ نے اپنی ہی پارٹی کے رہنما نہال ہاشمی کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کیا کہ ان کی پارٹی نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لئے کسی جبر کے تحت ووٹ دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ’’کوئی جبر نہیں تھا۔ یہ ملک کے لئے ایک اہم بل تھا۔ ایک قانون بنانا تھا۔ چنانچہ، پارلمنٹ کا حصہ ہونے کے ناطے اور سپریم کورٹ کے حکم پر ہمیں اپنا کردار ادا کرنا تھا جو ہم نے کیا‘‘۔
انہوں نے نہال ہاشمی کے اس خیال کو بھی مسترد کیا کہ ’’پارٹی کی لیڈرشپ پارٹی سے کٹ گئی ہے۔ اسے پارٹی سے الگ کر دیا گیا ہے اور اب کٹھ پتلی لوگ پارٹی چلا رہے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’نہال ہاشمی پہلے سینیٹ میں تھے۔ پھر میاں صاحب نے ان سے استعفیٰ لے لیا۔ اب ان کے پاس نہ پارٹی کا کوئی عہدہ ہے نہ کوئی فورم۔ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں جو چاہیں کہتے رہیں۔ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ پارٹی کی قیادت کے فیصلے کے مطابق ہی بل کی حمایت کی گئی‘‘۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود سینیٹ کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر ہیں اور جانتے ہیں کہ کوئی دباؤ یا جبر نہیں تھا۔
انہوں نے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کہنا غلط ہے کہ پارٹی نے ترمیم کی حمایت کر کے یوٹرن لیا، کیونکہ ان کی پارٹی نے کسی کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی بلکہ قانون سازی کے لئے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیا ہے‘‘۔
انہوں نے ایک بار پھر اپنی پارٹی میں اختلافات کی تردید کی اور کہا کہ ’’مریم نواز کا کوئی رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے اور خود میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان بھی ہے بعض مسائل پر اختلافات ہیں اور ہمیشہ سے ہیں، جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں‘‘۔
انہوں نے ان خبروں کو بھی غلط قرار دیا کہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل ہوئی ہے۔ مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ’’اتنی تکلیفیں اٹھانے اور سزائیں بھگتنے کے بعد کسی ڈیل کا کیا سوال پیدا ہو سکتا ہے؟‘‘
مزید تفصیلات کے لیے منسلک آڈیو لنک پر کلک کیجئے:
Your browser doesn’t support HTML5