پاکستان میں قانونی جھگڑوں اور مسائل کا تسلسل

پاکستان کی عدالت عظمیٰ

توہین عدالت کے متنازع قانون کی تقدیر کے فیصلے کی گھڑی پر سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان ایک بار پھر تصادم کا امکان
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ پیر کو توہین عدالت کے نئے متنازع قانون کے خلاف دائر ڈیڑھ درجن آئینی درخواستوں کی سماعت شروع کرے گا۔

پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری اور صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد توہین عدالت کا قانون 12 جولائی سے ملک میں نافذ العمل ہو چکا ہے۔

لیکن قانونی ماہرین کی اکثریت اس کی بعض شقوں کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دے چکی ہے اور ان کا ماننا ہے کہ عدالت عظمٰی انھیں ابتدائی سماعت میں ہی منسوخ کر دے گی۔

ان میں سرفہرست شق کے مطابق وزیر اعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور وزراء اعلٰی سرکاری فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں کیے گئے فیصلوں پر عدلیہ سمیت کسی کو جوابدہ نہیں ہیں جو ناقدین کے بقول ایک امتیازی شق ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں قانونی جھگڑوں اور مسائل کا تسلسل



سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ قانون سازی کا اختیار پارلیمان کو ہے جس میں مداخلت نہیں کی جاسکتی مگر توہین عدالت کے قانون میں شامل بعض امتیازی شقیں وکلاء برادری کے لیے قابل قبول نہیں۔

’’اگر کوئی قانون ایسا قانون ہو جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو یا کوئی ایسا قانون ہو جو اسلامی احکامات کے خلاف ہو تو عدالت کو اس بات کا اختیار ہے کو وہ ان مخصوص شقوں کو منسوخ کر سکتی ہے۔ توہین عدالت کے (نئے) قانون میں آپ نے وزیر اعظم اور وزراء کو مبرا کر دیا ہے جو میرے خیال میں امتیازی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔‘‘
اب اس کا انحصار اداروں پر ہے کہ اس ملک کو بحران سے نکالنا ہے یا بحران میں ڈالنا ہے۔
یاسین آزاد


ماہرین کا ماننا ہے کہ توہین عدالت کے نئے قانون کا بنیادی مقصد وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو تحفظ فراہم کرنا ہے کیونکہ عدالت عظمٰی نے انھیں صدر زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی بحالی کے لیے 25 جولائی تک سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دے رکھا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ عدلیہ کی حکم عدولی پر موجودہ وزیر اعظم کو بھی اپنے پیش رو یوسف رضا گیلانی کے طرح نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

’’اب بھی صورت حال وہی پرانے والی جگہ پہ موجود ہے۔ اگر آپ نے خط نہیں لکھا تو مجھے جو ماضی میں یوسف رضا گیلانی صاحب کے ساتھ ہوا (عدالت) وہی تاریخ واپس دہراتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ اب اس کا انحصار اداروں پر ہے کہ اس ملک کو بحران سے نکالنا ہے یا بحران میں ڈالنا ہے۔‘‘

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری


چیف جسٹس افتخار محمد چودھری حالیہ دنوں میں وکلاء برادری کی مختلف تقاریب سے خطابات میں بار بار متنبہ کر چکے ہیں کہ اعلٰی عدلیہ کسی بھی قانون پر نظر ثانی اور آئین سے متصادم ہونے کی صورت میں اُسے منسوخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

سپریم کورٹ سے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے لاہور میں وکلاء سے ایک حالیہ خطاب میں چیف جسٹس کے موقف کی پر زور الفاظ میں تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین پارلیمان کو عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کا حق نہیں دیتا۔

’’پارلیمان کو سپریم کورٹ کی بابت صرف ایسی قانون سازی کی اجازت دی گئی ہے جو سپریم کورٹ کے اختیارات میں اضافہ کرے۔ آئین نے عدلیہ کو یہ اختیار دیا کہ اگر کوئی قانون آئین کے یا بنیادی حقوق کے منافی ہے آپ اُس کو کالعدم قرار دے دیں۔‘‘

لیکن بالواسطہ طور پر ملک کی اعلٰی عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے صدر زرداری بھی اپنے تازہ ترین بیان میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے جو عوام کے مفاد میں آئندہ بھی اس عمل کو جاری رکھے گی۔

صدر آصف علی زرداری


پاکستانی صدر کے بقول عوام کی حقیقی نمائندہ ہونے کے ناطے جمہوری نظام میں پارلیمان ہی اعلٰی ترین ادارہ ہے جس کا احترام سب پر لازم ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ عدلیہ اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے درمیان پیر سے شروع ہونے والی نئی قانونی جنگ میں متعلقین اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے دیکھائی دیتے ہیں جو سیاسی و اقتصادی مشکلات سے دوچار پاکستان کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔