شاہراہ دستور کو خالی کروایا جائے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ عدالت عظمٰی نے ’حکم‘ پر عمل درآمد کر کے منگل تک عدالت میں رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے پیر کو وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والی حزب اختلاف کی جماعتوں کے کارکنوں سے بات چیت کر کے شاہراہ دستور کو عام آمد و رفت کے لیے کھول کر اور مظاہرین کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالت عظمٰی نے ’حکم‘ پر عمل درآمد کر کے منگل تک عدالت میں رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔

’’انھوں (عدالت) نے کہا ہے کہ احتجاج کرنا، ان کے حق ہے مگر وہ احتجاج جو کسی دوسرے کے حق کو متاثر کرتا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

کامران مرتضٰی کے بقول عدالت عظمیٰ کے احکامات ان کی ایک درخواست پر جاری کیے گئے جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج سے کسی غیر آئینی اقدام یا فوج کی مداخلت کی راہ کھل سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں تحریری احکامات سامنے نہیں آئے۔

شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ کے علاوہ پارلیمان کی عمارت، صدر مملکت اور وزیراعظم کی سرکاری رہائشگاہیں، دفاتر اور غیر ملکی سفارتخانے بھی ہیں۔

اس سے پہلے بھی اس مرکزی شاہراہ پر مختلف احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے ہوتے رہے، بالخصوص 2007 میں سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے ججوں کی معزولی کے بعد شروع ہونے والے وکلا کی مہم بھی یہاں ہی سے شروع ہوئی اور کافی عرصے تک شاہراہ بند رہی۔

تاہم کامران مرتضیٰ کا اس بارے میں کہنا تھا

’’اس تحریک میں حقوق کی اس طرح خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ یہ تو مسلسل وہاں بیٹھے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ وہ ایک بڑا مقصد تھا اور یہ تو صرف الزامات ہیں۔ اگر وہ غلط ہوگئیں تو پھر۔‘‘

چیف جسٹس ناصرالملک کا کہنا تھا کہ شاہراہ دستور بند ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے جج دوسرے راستے سے آ رہے ہیں اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے عملے کی حاضری بھی گذشتہ کئی دنوں سے بہت کم رہی ہے۔

تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ احتجاج میں شامل افراد پرامن ہیں، اور رہیں گے تاہم حکومت کی جانب سے کنٹینر لگا کر مختلف راستوں کو بند کیا جارہا ہے۔

’’کورٹ ہمارے لیے بہت محترم ہے اگر انہیں آنے جانے میں دقت ہے تو ہمارے کارکن ان کے راستے میں حائل نہیں ہوںگے۔ ہم ان کے سپاہی بن کر ان کے لیے راستہ بنائیں گے۔‘‘

ادھر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے پیر کو راولپنڈی سے اسلام آباد تک ایک ریلی نکال رہے ہیں جس کا مقصد حکومت کی حمایت اور وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دونوں شہروں کی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ حزب اختلاف اور حکمران جماعت کے کارکنوں کے درمیان ٹکراؤ کے امکانات کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔

علاوہ ازیں خیبرپختونخواہ کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے حکمران جماعت یا اس کے اتحادیوں کی طرف سے عوامی رابطوں کی مہم کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

’’چھ میں سے پانچ مطالبات مان لیے جائیں اور پھر بھی ایک بندہ کہے کہ نہیں تو نے جانا ہے تو پاکستان میں مائینس ون کا فارمولا نہیں چلے گا۔ ہم نواز شریف کے لیے نہیں لڑرہے ہم جمہوریت، پارلیمان اور آئین کے لیے لڑرہے ہیں اور ہماری جنگ جاری رہے گی۔

سیاسی مبصرین حکمران جماعت اور اتحادیوں کی طرف سے احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ریلیوں سے سایسی کارکنوں میں تصادم اور حالات کے مزید خراب ہونے کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں جو کہ ان کے بقول فوج کی مداخلت کی راہ کھول سکتا ہے۔

ا