کراچی کی صورتحال ، پی پی پی اور ایم کیو ایم نے کیا کھویا کیا پایا

کراچی کی صورتحال ، پی پی پی اور ایم کیو ایم نے کیا کھویا کیا پایا

پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان حالیہ سیاسی کشمش نے جہاں بہت سی نئی سوچوں کو جنم دیا ہے وہیں ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد اس کے پیپلزپارٹی سے رابطے منقطع ہونے ،ذوالفقار مرزا کے متنازعہ بیانات سے ان میں مزید تلخی آنے اور پھر اچانک تعلقات بحال ہوجانے کے درمیان کئی اہم پہلوبھی سامنے آئے ہیں ۔ بحالی تعلقات تک کراچی میں تقریباً ڈیڑھ سو جانوں کا ذیاں ہو ا مگراس تمام تر صورتحال میں دونوں جماعتوں کو بعض سیاسی فوائد بھی پہنچے ہیں ۔

سیاسی تبصرہ نگاروں کے مطابق ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی نے بہت سے ایسے سیاسی فوائد اٹھائے جواس کی حکومت میں موجودگی کے باعث ناممکن تھے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے اختلافات آخری حد تک پہنچ گئے ۔ پیپلزپارٹی کے رہنما ذوالفقار مرزا کے متنازعہ بیان نے جہاں شہر میں ہلچل مچائی وہیں اس کے رد عمل میں ایم کیو ایم کو فائدہ بھی پہنچا ۔

پیپلزپارٹی کو پہنچنے والے فوائد

علیحدگی کے کچھ روز بعد ہی سندھ میں کمشنری نظام بحال کر دیا گیا جس پر ایم کیو ایم کو سخت تحفظات تھے اور اس کا عملی مظاہرہ سندھ اسمبلی میں تیرہ جولائی کو اس وقت دیکھنے میں آیاجب ایم کیو ایم کے اراکین اپوزیشن نشستیں الاٹ کرنے کے لئے احتجاج کرتے رہے لیکن اس کے باوجود کمشنریٹ سسٹم ، پولیس ایکٹ مجریہ 1861 اور لینڈ ریونیو سے متعلق تین اہم بل منظور کر لیے گئے۔

حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال کر دی گئی ، ٹنڈو آلہ یار ، ٹنڈو محمد خان اور مٹیاری اضلاع کو ختم کر کے حیدرآباد میں دوبارہ شامل کر دیا گیا ۔ کراچی کی ون یونٹ حیثیت ختم کر دی گئی اور اسے پانچ اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا ۔

ان اقدامات پر ایم کیو ایم نے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور دونوں جماعتوں میں شدید اختلافات پائے گئے ، یہاں تک کے صدر زرداری کے لندن میں دو ہفتہ قیام کے دوران بھی ان کا الطاف حسین سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا ۔

پیپلزپارٹی کے شعلہ بیان رہنما ذوالفقار مرزا کے متنازعہ بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے جہاں پیپلزپارٹی کو فائدہ پہنچایا وہیں ایم کیو ایم کو بھی فائدہ پہنچا ۔

پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایم کیو ایم سے معافیاں مانگی گئیں اسی دوران صدر زرداری کے الطاف حسین سے رابطے اور معافی مانگنے کے عمل سے ایک بار پھر ایم کیو ایم سے مذاکرات کے دروازے کھل گئے جس کے نتیجے میں الطاف حسین نے مستعفی گورنر سندھ کو دوبارہ ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت کر دی ۔

گورنر کی واپسی سے جہاں حکومت کے لئے گرینڈ الائنس کی تخلیق کا خطرہ ٹل گیا وہیں کراچی میں قیام امن کی بھی امید پیدا ہو گئی جس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوا ۔

ایم کیو ایم کو ہونے والے فوائد

گورنر سندھ کی واپسی سے ایم کیو ایم کے جن سیاسی اسیروں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے تھے وہ کم ہو گئے ۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کے بہت سے قیدیوں کو اندرون سندھ کی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا تھا جن کی کراچی میں واپسی ہو گئی ۔

پیپلزپارٹی نے کشمیر مہاجرین کی دو نوں نشستوں سے ایم کیو ایم کے حق میں اپنے امیدوار دستبردار کر لیے جس سے ایم کیو ایم کی ان نشستوں پر جیت آسان ہو گئی ۔ دراصل یہی وہ دو نشستیں تھیں جن کو نہ پاکر متحدہ حکومت سے علیحدہ ہوگئی تھی۔

کمشنری نظام کی بحالی پر تحفظات کو دور کرنے کی بھی پیپلزپارٹی نے یقین دہانی کروائی۔ اسے یہ یقین بھی دلایا گیا کہ کراچی میں نئی حد بندیوں کے ضمن میں اور حیدرآباد کی پرانی حیثیت سے متعلق بھی مشاورت کی جائے گی ۔

ذوالفقار مرزا کے بیان کے بعد ایم کیو ایم کو ملک بھر میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل گیا اور وہ تمام طاقتوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ اسی طرح بہت سے روٹھے لوگوں کو مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت کا موقع بھی مل گیا ۔

گورنر کی واپسی سے ایم کیو ایم کو کراچی میں اپنے کارکنان کے خلاف ہونے والے کسی بھی طرح کے آپریشن کے خدشے سے نجات مل گئی۔ سندھ میں مسلم لیگ ق کو وزارتیں ملنے سے متحدہ کی اہمیت میں کمی نہیں آئے گی کیونکہ اپوزیشن میں رہ کر وہ تمام مطالبات پیش کر سکتی ہے جو حکومت میں رہتے ہوئے نہیں حل ہو سکتے تھے ۔

اسی طرح وفاق میں بھی اسے مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ حکومت کسی صورت اسے ناراض نہیں کرنا چاہتی جبکہ اپوزیشن بھی کسی معاملے میں اسے اعتماد میں لیے بغیر نہیں چل سکتی ۔