پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں ہلچل، بدھ کا دن اہم ہوگا

پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں ہلچل، بدھ کا دن اہم ہوگا

حج انتظامات میں بدعنوانی نے پاکستانی سیاست میں طغیانی پیدا کردی ہے اور مفاہمتی پالیسی کی نیّا کو پار لگانے میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کو کڑے امتحان سے دو چار کر دیا ہے ۔ ایک جانب تو جمعیت علماء اسلام (ف) نے حکمران جماعت سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے تو دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کے درمیان خلیج بڑھتی ہوئی صاف نظر آرہی ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ نے پارٹی کا نہایت اہم اجلاس طلب کرلیا ہے تو دوسری جانب پارٹی سربراہ الطاف حسین نے کارکنوں سے ممکنہ انتخابات کی تیاریاں شروع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ اس صورتحال میں مبصرین مفاہمتی عمل کا مستقبل بتانے سے گریزاں ہیں ۔

پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں ہلچل، بدھ کا دن اہم ہوگا

فروری 2008 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف میں سے کوئی جماعت بھی بڑی اکثریت حاصل نہ کر سکی تھی۔ لہذا پیپلزپارٹی نے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی اور مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر مخلوط حکومت قائم کی ۔ لیکن یہ غیر فطری اتحاد چند دنوں کا مہمان ثابت ہوا اور مفاہمت کی کشی کو پہلا ہچکولا مئی 2008 میں اس وقت لگا جب مسلم لیگ ن نے ججوں کی بحالی کے معاملے پر وفاقی کابینہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ تاہم پنجاب میں پیپلزپارٹی سے اتحاد برقرار رکھنے کا اعلان کیا ۔ مسلم لیگ ن کے پاس خزانہ ، تجارت ، خوراک و زراعت ، پیٹرولیم ، ریلوے ، ثقافت ، سائنس وٹیکنالوجی کی وزارتیں تھیں لیکن یہ وزارتیں دیگر اتحادیوں میں تقسیم کر دی گئیں ۔

پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں ہلچل، بدھ کا دن اہم ہوگا

مسلم لیگ ن کی علیحدگی کے بعد سیاسی صورتحال انتہائی گھمبیر ہو گئی اور بعض حلقوں کا خیال تھا کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ق) کو ساتھ ملا کر پنجاب اور وفاق میں حکومت کرے گی۔ تاہم ایسا نہ ہوا اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ حکمران جماعت اپنا سفر طے کر نے لگی ۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ متعدد معاملات پر اختلافات پیدا ہوئے لیکن ہر بار افہام و تفہیم کے ساتھ مسائل کو حل کر لیا گیا۔

حکمران اتحاد کو جہاں دہشت گردی ، مہنگائی ،بے روزگاری ،قدرتی آفات اور دیگر چیلنجز درپیش تھے وہیں مختلف اداروں میں کرپشن بھی درسر بن گئی ۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں نے بڑھتی ہوئی کرپشن کی متعدد بار نشاندہی کرائی تاہم حکومت کی جانب سے مطلوبہ توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث ڈونر ممالک نے بھی بدعنوانی کی روک تھام کیلئے اپنا دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ۔

مفاہمتی پالیسی کا شیرازہ اس وقت بکھرتا نظر آیا جب حالیہ سیلاب کے بعد حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے ریفارمڈ سیلز ٹیکس کا نفاذ کرنا چاہا تاہم متحدہ قومی موومنٹ ،اے این پی اورجمعیت علماء اسلام نے بھی اپوزیشن کے ساتھ مل کر اس کی مخالفت کر دی ۔

بعدازاں سینیٹ میں جب یہ بل پیش کیا گیا تو اے این پی حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئی تاہم جمعیت علماء اسلام اور ایم کیو ایم نے اس کی حمایت نہ کی۔ اگر چہ سینیٹ سے پیپلزپارٹی نے یہ بل پاس کروالیا تاہم اسے ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے جانبداری کا الزام دیا گیا اور اسے آئین اور قانون کے خلاف قرار دیا گیا ۔

اسی دوران نومبر میں سعودی عرب میں حجاج کے لئے ناکافی انتظامات پر وفاقی وزیر مذہبی امور کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا اور سب سے پہلے جمعیت علماء اسلام کے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی نے ان پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا جس پر حامد سعید کاظمی نے انہیں ہرجانے کا نوٹس بھی بھجوایا اور ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر از خود نوٹس لے لیا اور اب یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ۔

دوسری جانب حامد سعید کاظمی اور اعظم سواتی کے دوران میڈیا جنگ جاری رہی اور آئے دن نئے نئے الزامات ایک دوسرے پر عائد کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دونوں وزراء کو بیان بازی ترک کرنے کا مشورہ دیا تاہم بات نہ بنی ۔ اور بالاخر منگل کو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دونوں وزراء کو برطرف کر دیا ۔

جمعیت علماء اسلام نے اپنے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کی برطرفی پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور پاکستانی سیاست میں ہلچل مچ گئی ۔ موجودہ حکومت میں جے یو آئی کا بھر پور حصہ تھا، چھ رکن قومی اسمبلی اور ایک خواتین کیلئے مخصوص نشست کے علاوہ سینٹ کی دس سیٹوں پر بھی اس جماعت کا حق ہے ۔ اس کے علاوہ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائے امورکشمیرکے چیئرمین بھی ہیں۔ ان کے بھائی عطاالرحمن وفاقی وزیربرائے سیاحت اوررحمت اللہ کاکڑ ہاوٴسنگ اور تعمیرات کے وفاقی وزیرتھے جنہوں نے اپنے استعفیٰ وزیر اعظم کو بھجوا دیئے ہیں ۔ وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے حال ہی میں جے یوآئی کے مولانا شیرانی کواسلامی نظریاتی کونسل کاچیئرمین مقررکیا تھا۔

جے یو آئی کی علیحدگی بلاشبہ حکمران جماعت کے لئے مسلم لیگ ن کی علیحدگی کے بعد ایک اور بڑا ہچکولا ہے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ماہرین، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحادکو بھی خطرے میں دیکھ رہے ہیں ۔ ایک روز قبل وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کے ایم کیو ایم کے بعض کارکنان کے دہشت گردی میں ملوث ہونے سے متعلق بیان نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ ان کے اس بیان پر متحدہ سخت برہم ہے اور بدھ کو لندن اور کراچی میں بیک وقت رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ ہنگامی اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے اتحادی جماعتوں کے ساتھ رویے ، طرز عمل اور ایم کیو ایم کی جانب سے مفاہمتی اور مشاورتی عمل کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے، حکومت سے اتحاد برقرار رکھنے یاعلیحدہ ہونے کے حوالے سے آپشن پر غور کیا جائے گا۔

دوسری جانب بعض میڈیا ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے تمام تر صورتحال سے نمٹنے کے لئے سابق حکمراں جماعت مسلم لیگ ق سے بھی رابطے شروع کر دیئے ہیں اور اگر ایم کیو ایم بھی اس کا ساتھ چھوڑتی ہے تووہ مسلم لیگ ق کو اس کے متبادل کے طور پر سامنے لا سکتی ہے ۔

پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں ہلچل، بدھ کا دن اہم ہوگا

اس سیاسی طوفان میں مفاہمتی کشتی کیا رخ اختیار کرتی ہے اور وزیر داخلہ رحمن ملک جو مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھانے میں کافی ماہر سمجھے جاتے ہیں ان کا جادو چل سکے گا یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم سیاسی ایوانوں میں ہلچل چل مچانے والی یہ صورتحال حکمران جماعت کیلئے کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار وہ اس کا سامنا کر چکی ہے ۔