سیاست میں جو ہو رہا ہے وہ متوقع تھا: مبصر

فائل

مبصرین ملک کی سیاسی صورتِ حال کو مزید خراب ہوتا تو دیکھ رہے ہیں لیکن وہیں بعض کے خیال میں یہ سیاسی جنگ ہے جس سے نظام کو فی الوقت بظاہر کوئی خطرہ نہیں۔

پاکستان میں جہاں ایک طرف حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو قانونی محاذ پر مختلف مقدمات کا سامنا ہے تو وہیں حکومت پر حزبِ مخالف کی طرف سے دن بدن بڑھتی ہوئی تنقید بھی سیاسی ماحول میں تناؤ کا باعث بن کر اس کے لیے صورتِ حال کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔

ایسے میں حکومتی عہدیداروں اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات کو مختلف سیاسی و سماجی حلقے ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ تاہم حکومت اس تاثر کو مسترد کرتی ہے۔

نواز شریف اور ان کی حامی 28 جولائی کے عدالتی فیصلے کو مستقل تنقید کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں اور ایک روز قبل مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب ہونے کے بعد بھی نواز شریف نے اپنی تقریر میں نام لیے بغیر ریاستی اداروں کو یہ کہہ کر آڑے ہاتھوں لیا تھا کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والوں کو اقتدار سے ہٹانے کا حق بھی صرف عوام کے پاس ہی ہونا چاہیے اور اس میں کسی کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

دو روز قبل جب وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال کو احتساب عدالت میں نواز شریف کی پیشی کے موقع پر رینجرز نے احاطہ عدالت میں جانے سے روکا تھا تو احسن اقبال نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رینجرز ان کے ماتحت ہیں اور انھیں کس نے یہ حکم دیا کہ وہ وزیر داخلہ کو روکیں۔

ان کے بقول ریاست کے اندر ریاست قبول نہیں کی جا سکتی۔

بظاہر اس ساری صورتِ حال کے تناظر میں حزبِ مخالف نے ایوان بالا 'سینیٹ' کا اجلاس بلا کر اداروں کے درمیان مبینہ تناؤ پر بحث کرنے کی درخواست بھی کر دی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں منگل کو ہونے والے کورکمانڈرز کے خصوصی اجلاس کے بعد فوج کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا جو کہ روایتی طور پر ایسے اجلاسوں کے بعد جاری کیا جاتا رہا ہے۔

مبصرین ملک کی سیاسی صورتِ حال کو مزید خراب ہوتا تو دیکھ رہے ہیں لیکن وہیں بعض کے خیال میں یہ سیاسی جنگ ہے جس سے نظام کو فی الوقت بظاہر کوئی خطرہ نہیں۔

سینئر تجزیہ کار نسیم زہرہ نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منتخب وزیراعظم کو عدالتی فیصلے کے تناظر میں منصب چھوڑنا پڑا جس کے بعد وہ خود کو سیاسی میدان میں متحرک رکھتے ہوئے اپنی عوامی طاقت دکھانے کے لیے اپنے ایک بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں جو کہ سیاسی جنگ کا حصہ ہے۔

"یہ کسی حد تک متوقع تھا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو عدالتی سماعت کے بعد قانون کے تحت نکالا گیا۔ ان (نواز شریف) کی سپورٹ تو ہے تو ان کی طرف سے ردعمل تو ہونا تھا۔۔۔ مسلم لیگ (ن) سیاسی جنگ تو نہیں چھوڑے گی۔ اس جنگ کا حصہ ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر بھی تنقید کریں۔ نواز شریف حقائق اور افسانہ ملا کر بات کریں یہ تو ہوگا۔"

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ اس صورتِ حال میں نظام کو کوئی خطرہ ہے۔

"سوال یہ ہے کہ کیا ادارے کام کر رہے ہیں یا نہیں؟ حکومت چل رہی ہے، عدالتیں کام کر رہی ہیں، خارجہ پالیسی میں کوئی جمود نہیں۔ ظاہر ہے حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ لیکن حالات اس نہج پر نہیں پہنچے جہاں مجھے لگے کہ اب کوئی بحران پیدا ہونے والا ہے۔"

نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف جہاں احتساب عدالت میں مقدمات زیر سماعت ہیں وہیں بدھ کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سیاسی جماعت 'پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی' نے سابق وزیراعظم کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی ہے۔