جمعہ کو اسلام آباد میں نمونیا کے عالمی دن کے موقع پرمنعقد کی جانے والی ایک تقریب میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان سات ملکوں میں شامل ہے جہاں نمونیا کا مرض سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی کل اموات میں انیس فیصد نمونیہ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ پچھلے بیس سالوں میں صورت حال میں بہتری نہ آنے کی وجہ اس بیماری پر قابو پانے کے لیے مالی وسائل کی کمی نہیں بلکہ عوام میں آگہی کا فقدان اوراس کی روک تھام کے لیے سرکاری سطح پر سیاسی عزم کی کمی رہی ہے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک کروڑ بچے نمونیا سےمتاثر ہوتے ہیں جن میں سے صرف 50 فیصد کو ہی مناسب طبی امداد حاصل ہو پاتی ہے۔
تقریب میں موجود پمز ہسپتال کے شعبہ امراض اطفال کے سربراہ ڈاکٹر تابش حاضر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نمونیا کے مرض پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل یا جدید طبی سہولتیں درکار نہیں بلکہ صرف احتیاطی تدابیر سے ہی اس کی روک تھام ممکن ہے۔’’ اگر مائیں بچوں کو چھ ماہ تک اپنا دودھ پلائیں ، بچوں کی غذائی ضرورت کو پورا کیا جائے ، انہیں بر وقت حفاظتی ٹیکے لگوائے جائیں تو یہ مرض سے بہترین بچاؤ فراہم کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر تابش کا کہنا تھا کہ نمونیا زیادہ تر غریب طبقے میں پایا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں غذائی قلت ،گھروں کے اندر چولہے کے دھویں یا سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والی آلودگی اور ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی شامل ہیں۔ جبکہ اس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری، کھانسی، بخار ، پسلیوں کا چلنا اور بےہوشی طاری ہونا عام ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ محض حفاظتی ٹیکے لگوا کر ہی بہت سے ملکوں نے نمونیا سے بچوں کی اموات پر قابو پا لیا ہےاورحکومت کو چاہیئے کہ پولیو کی طرح نمونیا کو بھی قومی ایجنڈے میں شامل کرے۔