نواز شریف نے بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ ملکی استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں معاملات بات چیت کے ذریعے ہی حل کیے گئے اور اگر پاکستان میں ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہو گی۔
"اگر پاکستان میں بات چیت کے ذریعے امن قائم کر لیا جاتا ہے بات چیت کے ذریعے بدامنی کو روکا جا سکتا ہے اس کشت و خون کو روکا جاسکتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھی بات ہے، یہاں جس ملک (برطانیہ) میں ہم کھڑے ہیں انھوں نے بھی آئرلینڈ کے ساتھ اپنے معاملات کو اسی طرح طے کیا ہے۔"
وزیراعظم نے بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ ملکی استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔
نواز شریف نےگزشتہ ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ عمل رواں سال فروری کے اواخر میں شروع ہوا اور سرکاری کمیٹی و طالبان شوریٰ کے درمیان محض ایک براہ راست نشست کے بعد یہ عمل تاحال تعطل کا شکار ہے۔
حالانکہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان یہ کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات میں کسی بھی طرح کا ڈیڈ لاک نہیں ہے اور طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کاروں نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ جلد ہی حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان دوبارہ ملاقات ہوگی۔
ادھر تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بدھ کو ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایک بار پھر مذاکراتی عمل میں حکومت پر غیر سنجیدگی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
طالبان شوریٰ کے رکن اعظم طارق کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے مستقبل کا دارومدار حکومت کے ہاتھ ہے اور "تصفیے کے لیے بیٹھنے کی چٹائی کا بندوبست حکومت ہی نے کرنا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ طالبان مذاکرات کو بامقصد بنانا چاہتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے پہلے بھی حکومت پر غیر سنجیدگی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جسے حکومتی عہدیدار یہ کہتے ہوئے رد کر چکے ہیں کہ حکومت نے اعتماد سازی کے لیے 19 غیر عسکری طالبان قیدیوں کو رہا کیا جب کہ مزید ایک درجن کے قریب کو رہا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں معاملات بات چیت کے ذریعے ہی حل کیے گئے اور اگر پاکستان میں ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہو گی۔
"اگر پاکستان میں بات چیت کے ذریعے امن قائم کر لیا جاتا ہے بات چیت کے ذریعے بدامنی کو روکا جا سکتا ہے اس کشت و خون کو روکا جاسکتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھی بات ہے، یہاں جس ملک (برطانیہ) میں ہم کھڑے ہیں انھوں نے بھی آئرلینڈ کے ساتھ اپنے معاملات کو اسی طرح طے کیا ہے۔"
وزیراعظم نے بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ ملکی استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔
نواز شریف نےگزشتہ ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ عمل رواں سال فروری کے اواخر میں شروع ہوا اور سرکاری کمیٹی و طالبان شوریٰ کے درمیان محض ایک براہ راست نشست کے بعد یہ عمل تاحال تعطل کا شکار ہے۔
حالانکہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان یہ کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات میں کسی بھی طرح کا ڈیڈ لاک نہیں ہے اور طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کاروں نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ جلد ہی حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان دوبارہ ملاقات ہوگی۔
ادھر تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بدھ کو ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایک بار پھر مذاکراتی عمل میں حکومت پر غیر سنجیدگی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
طالبان شوریٰ کے رکن اعظم طارق کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے مستقبل کا دارومدار حکومت کے ہاتھ ہے اور "تصفیے کے لیے بیٹھنے کی چٹائی کا بندوبست حکومت ہی نے کرنا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ طالبان مذاکرات کو بامقصد بنانا چاہتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے پہلے بھی حکومت پر غیر سنجیدگی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جسے حکومتی عہدیدار یہ کہتے ہوئے رد کر چکے ہیں کہ حکومت نے اعتماد سازی کے لیے 19 غیر عسکری طالبان قیدیوں کو رہا کیا جب کہ مزید ایک درجن کے قریب کو رہا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔