پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت کی حکم عدولی کے الزامات کا دفاع کرنے والے سینیئر قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ اُن کے موکل توہین عدالت کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم گیلانی کو قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی ’این آر او‘ کو منسوخ کرنے کے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نا کرنے کی پاداش میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے جمعرات کو اُنھیں ذاتی طور پر طلب کر رکھا ہے۔
لیکن بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پر توہین عدالت کا مقدمہ نہیں بنتا کیوں کہ جب تک
حکمران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پاکستان کے صدر ہیں اُس وقت تک ان کے خلاف اندرون ملک یا بیرونی دنیا میں فوجداری کے مقدمے میں کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
’’میری رائے میں اس مقدمے میں توہین عدالت نہیں بنتی کیوں کہ صدر کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے … میں سپریم کورٹ کو بھی انشااللہ اپنی رائے اور دلیل سے منانے کی کوشش کروں گا تاکہ اداروں میں کسی قسم کا تناؤ، کھچاؤ نا ہو۔‘‘
لیکن اعتزاز احسن کی رائے کے برعکس پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان اور معروف ماہرین قانون کی اکثریت کا موقف ہے کہ سوئس حکام کو خط نا لکھ کر وزیر اعظم گیلانی نا صرف توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ عدلیہ کی مسلسل حکم عدولی سے ریاست کے دونوں اداروں میں تصادم کے خدشات میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
عدلیہ کے فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیر کرنے پر وزیر اعظم گیلانی کی جانب سے جمعرات کو سپریم کورٹ میں اس پر معذرت کرنے کے امکانات پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے اُن کے وکیل صفائی نے معنی خیز انداز میں صرف اتنا کہا کہ ’’کچھ سسپینس کل تک رہنا چاہیئے‘‘۔
اعتزاز احسن کے بقول اگر عدالت عظمیٰ نے اُن کے موکل کے خلاف فیصلہ سنا بھی دیا تو اُنھیں اپیل کا حق حاصل ہو گا۔
اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ عدالت کے حکم کا احترام کرتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے سوئٹزر لینڈ میں منجمد مقدمات کو دوبارہ کھلوانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے میں ’’کوئی ہرج نہیں‘‘ ہے۔
ادھر وزیر اعظم گیلانی کی سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت عظمیٰ کی عمارت اور اس کے ارد گرد حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر دیا گیا ہے جب کہ سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں داخلے کے لیے خصوصی اجازت نامے جاری کیے جا رہے ہیں۔
مسٹر گیلانی پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم ہیں جنھیں توہین عدالت کے مقدمے میں بذات خود پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے اور جسے بجا لانے کا وہ اعلان بھی کر چکے ہیں۔
اس سے قبل 1997ء میں اُس وقت ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے الزام میں طلب کیا گیا تھا اور وہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے سامنے پیش بھی ہوئے تھے۔