وزیراعظم نواز شریف کے مشیر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ’’وزیر اعظم نے کوئی استثنٰی نہیں مانگا ہے‘‘۔
مصدق ملک نے یہ بیان پیر کی شام ایک نیوز کانفرنس میں دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے پیر کو عدالت عظمیٰ میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت یہ پارلیمان کا استحقاق ہے کہ اُس کی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جا سکتا۔
’’تو یہ فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو کرنا ہے کہ پارلیمان کی کارروائی کو وہ کس طرح استعمال کرنا چاہتی ہے، یہ فیصلہ ہمارا نہیں ہے۔ اس سے وزیراعظم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیوں کہ اگر پارلیمانی کارروائی کو عدالتوں میں استعمال کرنے کی روایت پڑ جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے ایک مثال قائم ہو جائے گی۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے خود کو عدالت میں پیش کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت جب پیر کو شروع ہوئی تو نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
مخدوم علی خان نے پیر کو آئین کی شقوں 62 اور 63 کے بارے میں دلائل دیئے، اس سے قبل گزشتہ جمعہ کو بھی اُنھوں نے اس بارے میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی ان شقوں کے تحت کسی بھی رکن اسمبلی کو نا اہل قرار دینے کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کو عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا کیوں کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی کو استثنیٰ حاصل ہے۔
پاناما لیکس پر حزب مخالف کی جماعتوں کے احتجاج کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اس بارے میں تقریر کر کے اپنی وضاحت پیش کی تھی۔
اس معاملے میں ایک مرکزی درخواست گزار جماعت تحریک انصاف کے وکیل کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ وزیراعظم کی تقریر اور اُن کی طرف سے عدالت میں جمع کروائے گئے بیان میں تضاد ہے۔
تاہم وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھا کہ اپنے کاروبار سے متعلق تمام تفصیلات نا بتانا ’’جھوٹ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔
پیر کو سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت میں وزیراعظم کی تقریر کو پارلیمان میں دیئے گئے ایک بیان کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے دیکھا جا رہا ہے کہ کیوں کہ اس کا تعلق زیر سماعت مقدمے سے ہے۔
عدالت کے پانچ رکنی بینچ کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم نے کوئی غلط بیانی نہیں کی تو پھر استثنیٰ کیوں مانگا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت یہ بھی ضروری ہے کہ رکن قومی اسمبلی صادق اور امین ہو۔
تحریک انصاف کا یہ الزام رہا ہے کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں ’جھوٹ‘ بولا اس لیے اُن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
لیکن وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے کہا کہ وزیراعظم کے قومی اسمبلی میں دیئے گئے بیان میں نا تو کوئی تضاد ہے اور نا ہی اُن کے موکل نے کوئی غلط بیانی کی ہے۔
پیر کو ہونے والی سماعت کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے کا جواز کھو بیٹھے ہیں۔
’’وزیر اعظم اخلاقی قوت سے حکومت کرتا ہے بات یہ ہے کہ نواز شریف کی اخلاقی قوت ختم ہو گئی ہے ۔۔۔ یہاں ہمیں کبھی سپریم کورٹ میں آنا ہی نہیں پڑنا تھا اگر (وزیراعظم) اسمبلی کے اندر اپنے ثبوت رکھ دیتے لہذا نواز شریف کی اخلاقی قوت ختم ہو چکی ہے۔‘‘
وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے بیان میں کوئی تضاد نہیں تھا۔
’’وزیر اعظم کی پارلیمان کی تقریر ہو چاہے، وہ قوم سے خطاب ہو۔۔۔ (اُنھوں نے) کسی قسم کا نا کوئی جھوٹ بولا ہے ۔۔۔ اندر ہمارے پہلے وکیل کے دلائل تھے اور انھوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کی تقریر میں کسی قسم کا نا کوئی تضاد ہے نا جھوٹ بولا گیا ۔۔۔ عمران خان صاحب یہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف عدالت میں آ کر بغیر ثبوت دیے یہ کہہ دیں کہ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیں کیونکہ انھوں نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا ہے ایسا ہو نہیں سکتا۔‘‘
مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے اور منگل کو بھی وزیراعظم نواز شریف کے وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔