پاکستان کی حکومت نے کرونا وبا کی دوسری لہر کے باعث ملک بھر میں 300 سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں اسے حکومت کی جانب سے اُن کے جلسے ختم کرانے کی کوشش قرار دے رہی ہیں۔
پیر کو قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد قوم سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ فوری طور پر اپنے جلسے ختم کر رہے ہیں اور دوسروں سے بھی ایسا کرنے کی اپیل کریں گے۔
لیکن منگل کو ایک اجلاس میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومتی اعلان مسترد کرتے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں شیڈول کے مطابق اپنے جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ کرونا کی آڑ میں جلسوں پر پابندی لگانے کو مسترد کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسے شیڈول کے مطابق کیے جائیں گے۔
پی ڈی ایم کے پلیت فارم سے آئندہ جلسہ 22 نومبر کو پشاور میں ہو گا جب کہ آئندہ ماہ لاہور میں بھی جلسہ شیڈول کیا گیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ وہ شیڈول کے مطابق جلسے کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناااللہ نے کہا کہ حکومت نے جو پہلے لاک ڈاؤن کیا تھا، اُس کی صلاحیت حکومت کے پاس نہیں تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ وفافی حکومت مارچ میں کرونا کی پہلی لہر کے دوران لاک ڈاؤن نہیں کرنا چاہتی تھی جب کہ سندھ حکومت یہ کرنا چاہ رہی تھی۔ لہذٰا اب بھی اس حکومت کی کوئی پالیسی نہیں۔ اپوزیشن کے جلسوں کے خوف سے ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری منظور حسین کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت خود جلسے بھی کر رہی ہے اور تقریبات میں بھی وزیر اعظم شریک ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری منظور حسین نے کہا کہ پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ میں ہونے والے پہلے جلسے سے قبل حکومتی جماعت نے راولپنڈی میں جلسہ کیا تھا جس میں کسی کرونا ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ لیکن پی ڈی ایم کی جماعتوں کو کہا جا رہا تھا کہ وہ گوجرانوالہ میں جلسہ نہ کریں۔
چوہدری منظور کے مطابق اِس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے خود جلسے کیے۔ جس میں وزرا بھی تقریریں کرتے رہے جو الیکشن کمشن کے ضابطۂ اخلاق کی بھی خلاف ورزی تھی۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ جلسے نہ کریں۔
چوہدری منظور نے کہا کہ "اپوزیشن نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ ہر صورت جلسے ہوں گے، جلسوں میں کرونا ایس او پیز کو یقینی بنایا جائے گا۔ ویسے بھی جلسے کھلے میدانوں میں ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی جگہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔"
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ خوش قسمتی سے کرونا وائرس اس خطے میں اتنا مہلک نہیں ہے جتنا یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں ہو رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وبا کی پہلی لہر کے خاتمے میں حکومت کا کوئی کمال نہیں تھا۔ یہ خود بخود کم ہوا تھا۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے حکومت کی پالیسی انتہائی ناقص تھی۔ لوگوں کو ضروری انجکشن اور دوائیں تک دستیاب نہیں تھیں۔ جب کہ جو ماسک دو روپے کا تھا وہ تیس، تیس روپے میں فروخت ہوتا رہا۔
رانا ثںااللہ کا کہنا تھا کہ اِس وقت حکومت جو پروپیگنڈا کر رہی ہے وہ صرف اور صرف اپوزیشن کی تحریک کو روکنے کے لیے کر رہے ہیں۔
چوہدری منظور حسین کی رائے میں حکومت نے عوامی مفاد کی خاطر اپنے جلسے ملتوی نہیں کیے بلکہ اُنہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے ڈر سے ایسا کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب کھلے میدانوں میں شادیوں پر پابندی نہیں ہے تو کھلے میدانوں میں جلسوں پر کیسے پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
ادھر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں نے اپنی ہٹ دھرمی نہ چھوڑی تو پاکستان میں دسمبر کے آخر تک کرونا وبا قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اپوزیشن جماعتوں پر عائد ہو گی۔
بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کا جلسے کرنے پر اصرار یہ ثابت کرتا ہے کہ اُنہیں عوام کی صحت کا کوئی خیال نہیں اور وہ صرف اپنی سیاست چمکانے کو اہمیت دے رہے ہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس کی صورتِ حال
پاکستان میں کرونا کیسز پر نظر رکھنے والے ادارے 'این سی او سی' کے مطابق پاکستان میں کرونا وبا کے باعث ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہزار سے بڑھ چکی ہے، جب کہ مجموعی طور پر تین لاکھ 63 ہزار سے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر احتیاط نہ کی گئی تو اِس کی دوسری لہر پہلے سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اور وفاقی وزیر اسد عمر کے مطابق پاکستان میں گرمیوں سے پہلے کرونا وائرس کی ویکسین کی بڑی مقدار میں دستیابی ممکن نہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ بداحتیاطی کے باعث ملک میں کرونا کیسوں میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ اسد عمر نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ صورتِ حال رہی تو پاکستان میں دوبارہ اسپتالوں میں جون جیسے حالات ہو سکتے ہیں۔