شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی اکثریت اپنے گھروں کو جلد واپس جانے کی خواہاں ہے جب کہ ان بے گھر افراد کے علاوہ میزبان علاقوں کے لوگ بھی اب مشکلات کا زیادہ تذکرہ کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے میں 15 جون سے فوج نے شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس کی وجہ سے یہاں سے تقریباً چھ لاکھ لوگ نقل مکانی کر کے خیبر پختونخواہ کے مختلف بندوبستی علاقوں میں عارضی طور پر رہائش پذیر ہیں۔
بنوں میں مقیم شمالی وزیرستان کے ایک قبائلی رہنما مولوی احمد سعید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان کے متعدد علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا کہا جا رہا ہے لہذا ان کا مطالبہ ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں کو ان کے گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے۔
’’یہ انتہائی سخت تکلیف میں ہیں کیونکہ ایک تو اپنے علاقے سے آئے ہوئے ہیں اور دوسری یہ کہ یہاں پر ان کو وہ مراعات میسر نہیں ہیں جو ان کو اپنے گھر میں حاصل تھیں۔ یہاں پر اس کو بہت کچھ بھی ملے نا لیکن چونکہ اپنا وطن اور دوسرے وطن میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔‘‘
حکومت کی طرف سے بے گھر افراد کے لیے عارضی رہائش اور خوراک کا انتظام کیا گیا ہے لیکن بہت سے لوگ کیمپ کی بجائے کرائے پر گھر لے کر یا پھر اپنے عزیزوں کے ساتھ مقیم ہیں۔
بنوں میں تاجر برادری کے ایک رہنما ملک مقبول خان نے بتایا کہ لاکھوں لوگوں کی آمد سے ان کے کاروبار کے علاوہ معمولات زندگی بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
’’اصل میں اتنے سارے لوگوں کے آ جانے کی وجہ سے بہت بوجھ پڑا ہے، کاروبار پر، رہائش پر اور دیگر معاملات میں بہت بوجھ پڑا ہے۔ یہ سارا بوجھ حکومت پر بھی ہی عوام پر بھی سب پر بوجھ ہے۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ دعاگو ہیں ان لوگوں کی اپنے گھروں کو جلد واپسی ممکن ہو سکے جو کہ ان کے بقول سب کے حق میں بہتر ہے۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کی ان کے گھروں کو باعزت طریقے سے واپسی کو یقینی بنائے گی۔
گورنر خیبرپختونخواہ کی طرف سے بھی حالیہ دنوں میں یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ فوجی آپریشن مہنیوں نہیں بلکہ ہفتوں کی بات ہے جس کے بعد بے گھر افراد کی واپسی کا مرحلہ شروع ہو سکے گا۔
تاہم عہدیداروں کی طرف سے فوجی کارروائی مکمل ہونے کا تاحال کوئی وقت نہیں دیا گیا۔