پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ملک میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق جمعرات کو پہلی قومی پالیسی کا اعلان کیا۔
اس پالیسی کی تیاری گزشتہ تین ماہ سے جاری تھی۔ نئی پالیسی کے تحت تمام بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں یعنی ’این جی اوز‘ کو ساٹھ روز میں اپنے اندارج کے لیے از سر نو درخواست دینا ہو گی۔ وزیر داخلہ کے بقول یہ تمام عمل آن لائن نظام کے ذریعے ہی مکمل کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار نے بتایا کہ درخواست ملنے کے بعد ساٹھ روز میں اس بارے میں کارروائی مکمل کر لی جائے گی اور اُن کے بقول یہ کام صرف اور صرف وزارت داخلہ ہی کرے گی۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ جن بین الاقوامی این جی اوز کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی، اُنھیں تین سال کے لیے مفاہمت کی یاداشت پر دستخط بھی کرنے ہوں گے جس میں اُن کے دائرہ کار کا تعین کیا جائے گا۔
’’ایک باقاعدہ نگرانی کا نظام بنا دیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ مفاہمت کی یاداشت یا (ایم او یو) ایک خاص مقصد کے تحت سائن ہوں اور کام وہ کچھ اور کر رہی ہوں، یہ نہیں ہو گا۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک نگران کمیٹی بنائی گئی ہے وہ بھی وزارت داخلہ میں ہے۔‘‘
چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو اپنے کام کے لیے مالی وسائل حاصل کرنے سے قبل پاکستانی حکومت سے اجازت لینا ہو گی۔
’’انٹرنیشنل این جی اوز پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر عطیات اکٹھے نہیں کر سکیں گی، جب تک وہ حکومت پاکستان سے اجازت نہیں لیں گی۔ اس سے پہلے تو مادر پدر آزادی تھی، جہاں سے مرضی فنڈز حاصل کر لیے جاتے تھے، باہر سے بھی اور اندر سے بھی۔۔۔۔۔۔ جو مقامی این جی اوز ہیں، ان کی انٹرنیشنل این جی اوز کسی قسم کی مالی یا کوئی اور مدد نہیں کر سکیں گے بغیر حکومت پاکستان کی اجازت کے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ایسی بین الاقوامی ’این جی اوز‘ جن کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی اگر اُن میں سے کوئی تنظیم غیر قانونی طریقے سے مالی وسائل کے حصول یا کالعدم تنظیموں سے رابطوں میں ملوث پائی گئی تو اُس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔
اس موقع پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس تاثر کو زائل ہونا چاہیئے کہ پاکستانی حکومت غیر ملکی ’این جی اوز‘ کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔
’’دنیا دیکھ سکے گی کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے پاکستان کی کھلے دروازوں کی پالیسی ہے۔ یہ جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ہم عالمی ’این جی اوز‘ پر سختی کر رہے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو شفاف بنا رہے ہیں۔ اور بہت سارے این جی اوز جو بہت مثبت کام کر رہے ہیں ہم ان کے کام کو سہل بنائیں گے۔‘‘
واضح رہے کہ رواں سال جون میں حکومت نے بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ’سیوو دی چلڈرن‘ کے اسلام آباد میں دفتر کو سیل کر دیا تھا۔ لیکن بعد میں اس تنظیم کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
اگرچہ بین الاقوامی ’این جی اوز‘ سے متعلق متعارف کروائی گئی نئی پالیسی پر غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
لیکن سیوو دی چلڈرن کا دفتر بند کیے جانے کے بعد بین الاقوامی اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں کے سرگرم کارکنوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر اُن کے کام کو مشکل بنایا جائے گا تو اس سے وہ پاکستانی ہی متاثر ہوں گے جن کی سہولت کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔