خارجہ پالیسی کا محور قومی مفادات ہوں گے: شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیں گے اور ان کے بقول جہاں جہاں سمت درست کرنے کی ضرورت ہے وہاں اس کی سمت درست کی جائے گی۔

پاکستان کے نئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کا محور پاکستان کے قومی مفادات ہوں گے اور خارجہ پالیسی، دفترِ خارجہ میں ہی تشکیل دی جائے گی۔

پیر کو وزیرِ خارجہ کا حلف اٹھانے کے بعد اسلام آباد میں اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں شاہ محمود قریشی نے پاکستان تحریکِ انصاف کی کی نئی اتحادی حکومت کی خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کیے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیں گے اور ان کے بقول جہاں جہاں سمت درست کرنے کی ضرورت ہے وہاں اس کی سمت درست کی جائے گی۔

"ہماری خارجہ پالیسی جہاں ہم چاہیں گے کہ خطے میں امن و استحکام ہو، وہاں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی ترجیحات میں یہ اولین ترجیح ہے کہ ہماری سوچ کا محور پاکستان کا عام شہری ہو۔ اس کی زندگی میں کیسے بہتری لا سکتے ہیں۔ ہم اقتصادی سفارت کاری، بین الاقوامی رابطوں کے ذریعے ایک عام شہری کے معیار زندگی کو کس طرح بہتر کر سکتے ہیں۔"

کابل کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار

پاک افغان تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے بہت جلد کابل کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ "میں افغانستان کے لوگوں کے لیے ایک ٹھوس پیغام لے کر جانا چاہتا ہوں۔ ہمارا مستقبل جڑا ہوا ہے۔ ہمارا امن و استحکام جڑا ہوا ہے۔ ہمارا جغرافیہ جڑا ہوا ہے۔ افغانستان کے امن و استحکام کے بغیر پاکستان میں نہ چین ہوگا، نہ امن ہو گا، نہ استحکام ہوگا۔"

وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ "ہم ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ہم نے ایک دوسرے کا معاون بننا ہے۔ ہم نے ماضی کی روش سے ہٹ کر ایک نئے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ اور میں ایک پیغام لے کر افغانستان جانا چاہتا ہوں۔ اور اپنے پختہ ارادے اور سوچ وہاں کی قیادت کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔"

'مسئلۂ کشمیر ایک حقیقت ہے'

پاک بھارت تعلقات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے بھارت کی وزیرِ خارجہ ششما سوراج کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دو ایٹمی طاقتیں ہونے کے ناتے اسلام آباد اور نئی دہلی کے پاس باہمی تنازعات کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کرنے کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

"مشکلات کو جانتے ہوئے کہ مسئلے پیچیدہ ہیں، جانتے ہوئے کہ ان کا کوئی فوری آسان حل نہیں، لیکن ہمیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے۔ ہم روٹھ کر ایک دوسرے سے منہ نہیں موڑ نہیں سکتے۔ ہمیں حقائق تسلیم کرنے ہوں گے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے دیرینہ حل طلب مسائل ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں کشمیر ایک حقیقت ہے۔ ایک مسئلہ ہے۔ اس کو دونوں ملکوں نے تسلیم کیا ہو ا ہے۔"

'واشنگٹن کی ترجیحات اور تحفظات جانتے ہیں'

پاک امریکہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے اانہوں نے کہا کہ وہ واشنگٹن کی ترجیحات اور تحفظات سے آگاہ ہیں۔

"ان تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے دوٹوک بات کروں گا کہ آپ کی ترجیحات اپنی جگہ لیکن ہماری (پاکستان) کی ترجیحات بھی ہیں۔ ہماری توقعات بھی ہیں اور تعلقات عزت و احترام کے ساتھ دو طرفہ ہوتے ہیں۔۔۔ میں اس بات سے غافل نہیں ہوں کہ اعتماد کا فقدان ہے۔ اسے دور کرنا ہے۔"

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انہیں امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے نئے وزیرِ خارجہ کا پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اطلاعات ہیں کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو ممکنہ طور پر ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔

پاکستان کی طرف سے تاحال امریکی وزیرِ خارجہ کے دورے کے بارے میں یا اس کی حتمی تاریخ کے متعلق باضابطہ طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

تاہم پاکستان کی سکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اس دورے کی تفصیلات طے کی جارہی ہیں۔

'خارجہ پالیسی دفترِ خارجہ میں ہی بنے گی'

نیوز کانفرنس کے دوران ایک غیر ملکی صحافی نے جب ان سے پوچھا کہ ایک عمومی خیال ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کرتی ہے تو ایسے میں ان کی حکومت خارجہ پالیسی بنانے میں کس حد تک آزاد ہو گی؟

اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کہ مغرب میں پہلے سے یہ تاثر موجود ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب دفتر خارجہ میں بنے گی۔

تاہم ان کے بقول دنیا بھر میں یہ روایت ہے کہ خارجہ پالیسی وضع کرتے ہوئے قومی سلامتی کے اداروں کی رائے لی جاتی ہے جو ان کے بقول کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے کے لیے اہم ہوتی ہے۔