سلجوق سلطنت کے بانی اور ملٹری کمانڈر 'طغرل' کے نام سے منسوب بحری جنگی جہاز 'پی این ایس طغرل' کو پاکستان بحریہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ طغرل نام کا تیسرا جہاز ہے جو پاکستان کی بحریہ میں شامل ہوا ہے۔ ان میں سے ایک 1950 میں برطانوی ساختہ، دوسرا 1980 میں امریکی ساختہ اور اب یہ تیسرا جہاز چینی ساختہ ہے۔
'طغرل'4 ٹائپ 054 ایلفا پی' کہلانے والے فریگیٹ جہازوں کی سب سے اعلیٰ قسم ہے جو چین میں تیار کیا گیا ہے۔
پی این ایس طغرل اگست 2020 میں تیار ہوا تھا اور 8 نومبر 2021 کو چین ہی کے ایک شپ یارڈ میں اس کی کمیشننگ ہوئی۔ 054 ٹائپ یہ جنگی بحری جہاز انتہائی طاقت ور بحری جہاز تصور کیا جاتا ہے جس پر سمندر کی سطح پر مار کرنے والے سپر سونک کروز میزائل کے علاوہ ایئر ڈیفنس میزائل، ٹورپیڈوز، سطح آب کے نیچے بھی مار کرنے کی صلاحیت سمیت اعلیٰ نوعیت کا جدید ترین حربی اسلحہ، الیکٹرانک آلات سے لیس اور سینسرز نصب ہیں۔
حکام کے مطابق اس جہاز کو کثیر خطرات کے ماحول میں لڑنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور یہ بحری جہاز مطلوبہ فائر پاور ایک سے زیادہ ڈومین میں پیدا کرسکتا ہے۔
پاکستان کے چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل امجد خان نیازی کا کہنا ہے کہ اس بحری جہاز کی شمولیت سے پاکستان نیوی کو بحری جنگوں میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں مزید مدد ملے گی۔
نیول حکام طغرل کی بحریہ میں شمولیت کو پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کے نئے باب سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔
چین کے تعاون سے پاکستان نیوی کے لیے اس قسم کے جہازوں کی سیریز کے علاوہ ایف 22 پی فریگیٹ، زیڈ-9 ہیلی کاپٹرز، سروے کے لیے استعمال ہونے والا بحرِ مساح، عظمت کلاس فاسٹ ایئرکرافٹس میزائلز اور سب میرین ہنگور بھی تیار کی گئی ہیں۔
چار ہزار ٹن وزنی پی این ایس طغرل جہاز 18 ناٹیکل میل کی رفتار سے بغیر رُکے 7 ہزار 400 کلو میٹر کا سفر طے کرسکتا ہے۔ اس جہاز کی زیادہ سے زیادہ رفتار 27 ناٹیکل میل بتائی جاتی ہےاور یہ 440 فٹ لمبا اور 52 فٹ چوڑا ہے۔ طغرل جہاز پر ایک ہیلی کاپٹر بھی اتر سکتا ہے۔
پاکستان نیوی میں 36 سال تک فرائض انجام دینے والے کموڈور ریٹائرڈ سید محمد عبیداللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ بحری جہاز پاکستان کے پاس سب سے زیادہ جدید، تباہ کن اور خطرناک بحری جہاز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی سیریز کے مزید جہاز بھی تیار کیے جارہے ہیں جو چین سے پاکستان کو منتقل کیے جائیں گے۔
پی این ایس طغرل کا چار ممالک کا حالیہ سفر؛ "دوستوں اور دشمنوں کو پیغام دینا مقصد ہے"
کمیشننگ کے بعد یہ جہاز چار مختلف ممالک سے ہوتا ہوا کراچی پہنچا ہے۔ جن میں برونائی، ملائیشیا، فلپائن اور سری لنکا شامل ہیں۔ کموڈور ریٹائرڈ عبیداللہ نے ان دوروں کے ذریعے ہونے والی مشقوں کو میری ٹائم ڈپلومیسی قرار دیا اور بتایا کہ اس کا مقصد ہی دوست اور دشمنوں کو پیغام پہنچانا ہوتا ہے تاکہ وہ اس سے پاکستان کی بحری قوت کا صحیح اندازہ لگا سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کموڈور ریٹائرڈ عبیداللہ نے بتایا کہ 80 اور 90 کی دہائی تک پاکستان کے پاس کوئی بہتر بحری جنگی جہاز نہیں تھے اور اکثر جہاز پرانے تھے۔ لیکن اب وہ صورت ِحال نہیں۔
اُن کے بقول پاکستان نے جہازوں کی خود تیاری اور پھر چین کی بھی مدد حاصل کی۔ چین کے ساتھ دفاعی تعاون کا ایک لمبا سفر طے ہو چکا ہے جس میں ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے ذریعے کراچی شپ یارڈ میں میزائل بوٹس، فریگیٹس اور اب سب میرین تیار کی جارہی ہیں۔
پاکستان اب بھارت کی بحری قوت کو چیلنج کر رہا ہے؟
دفاعی اور بحری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں دنیا پر حکومت، اجارہ داری اور اثر و رسوخ کے لیے بحرہند اور بحرالکاہل اہم ہیں جہاں بھارت، چین اور امریکہ کے درمیان مقابلہ ہے۔
اُن کے بقول ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ کموڈور عبیداللہ نے بتایا کہ پاکستان کی بحری قوت اب تک دفاعی نوعیت کی رہی ہے اور اس کی حکمتِ عملی کبھی بھی جارحانہ نہیں رہی۔ اور نہ ہی ملکی معیشت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اس حوالے سے کوئی عالمی عزائم رکھے جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان بحری قوت کا مقابلہ کیا جائے تو بھارت کی طاقت چار گنا زیادہ تھی،ہے اور آگے بھی رہنے کاامکان ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے پاس اس وقت پانچ جب کہ بھارت کے پاس 17 سب میرینز ہیں جن میں ایٹمی طاقت کی حامل بھی ہیں۔
لیکن پاکستان کے پالیسی سازوں کے خیال میں اس عددی فرق کو پر کرنے اور طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے پروفیشنلزم اور ٹریننگ کا سہارا لیا جائے گا۔
چین کی جانب سے پاکستان کو فوجی ساز و سامان کی فراہمی سے خطے پر اثر پڑ سکتا ہے: بھارت
ایک جانب پاکستان اور چین دفاعی شعبے میں شراکت داری کو مزید تقویت دے رہے ہیں وہیں بھارت بھی اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان بڑھتے دفاعی تعاون پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
بھارتی نیول چیف کرم بھیر سنگھ نے گزشتہ سال نومبر میں ممبئی میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین کی جانب سے پاکستان کو بحری جہاز، سب میرینز اور دیگر فوجی ساز و سامان بڑے پیمانے پر برآمد کرنے سے خطے کی سیکیورٹی پر فرق پڑ سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس صورتِ حال میں بھارتی نیوی کو تیار رہنا ہوگا جب کہ بھارت اس ساری صورتِ حال پر باریک بینی سے نظر رکھے ہوئے ہے۔
بھارت کے مطابق پاکستانی بحریہ کو جدید جہازوں کی فراہمی اور گوادر پورٹ کے ذریعے بحر ہند اور خاص طور پر بحیرۂ عرب میں چینی بحریہ کی موجودگی بڑھ جائے گی جس سے بھارت کی فکر مندی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کو چین کی بحر ہند پالیسی کا حصہ سمجھتا ہے۔
چین کے ساتھ کشیدگی میں بھارت کی نظریں امریکہ پر
دوسری جانب کئی ماہرین کے خیال میں جہاں چین پاکستان کو دفاعی میدان میں تعاون کی پیش کش کررہا ہے وہیں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو امریکہ کی مدد بھی حاصل ہے۔
امریکہ کی جانب سے انڈو پیسفک اسٹرٹیجی کے تحت بھارت اور امریکہ کے درمیان حالیہ عرصےمیں دفاعی تعاون میں تیزی دیکھی گئی ہے اور اکتوبر 2020 میں اس حوالے سے طے ہونے والی 2+2 دفاعی ڈیل کو اہم سمجھا جارہا ہے۔
اس ڈیل کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کو حساس سیٹلائٹ ڈیٹا کی شیئرنگ کریں گے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان 16 ارب ڈالرز کی دفاعی ڈیل کے معاہدے طے پاچکے ہیں۔ جب کہ دیگر کئی معاہدے ابھی طے ہونا باقی ہیں۔
اسی طرح قطر کی جانب سے بھی پاکستان کو دس سی کنگ ہیلی کاپٹرز، اس کے اسپئیرز اور سیمولیٹر بھی تحفے کے طور پر دیے گئے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق اس سے پاکستان نیوی کی حربی صلاحیتوں کو بڑھانے میں کافی مدد ملے گی۔