پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تحریری معاہدے سے باز رکھنے کے لیے دفاعِ پاکستان کونسل کا کوئٹہ سے چمن تک ’لانگ مارچ‘۔
افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو رسد کی ترسیل کے لیے باقاعدہ طریقہ کار اپنانے کی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے جس کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان مجوزہ معاہدے پر آئندہ ہفتے دستخط متوقع ہیں۔
پاکستان نے سات ماہ کی بندش کے بعد تین جولائی کو نیٹو سپلائی لائنز بحال کر دی تھیں لیکن مستبقل میں کسی بحران سے بچنے کے لیے امریکہ کے ساتھ 10 سال بعد پہلی مرتبہ ایک تحریری معاہدے کے ذریعے دونوں ملکوں نے اس سلسلے کو تحفظ فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس ضمن میں جاری صلاح مشوروں کے سلسلے میں صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں اسلام اباد میں ہفتہ کی رات دیر گئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف اور بری فوج کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کے علاوہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمٰن نے بھی شرکت کی۔
مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ اجلاس میں نیٹو رسد سے متعلق مجوزہ مفاہمتی یاداشت کو حتمی شکل دی گئی، مگر سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تحریری معاہدے پر مستقبل قریب میں دستخط کا عندیہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں بھی دیا تھا۔
’’ہم مفاہمتی یاداشت سے متعلق داخلی معاملات کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور ہمیں اُمید ہے کہ اس (دستاویز) پر بہت جلد دستخط ہو جائیں گے۔‘‘
پاکستان میں جہاں ایک جانب طالبان عسکریت پسندوں نے نیٹو رسد سے لدے قافلوں پر حملوں کی دھمکی دی ہے وہیں ملک میں مذہبی تنظیموں اور حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے سپلائی لائنز کی بحالی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جس کا مقصد پاکستان کو امریکہ کے ساتھ اس کسی بھی طرح کے تحریری معاہدے سے باز رکھنا ہے۔
لیکن حکومت کے نمائندوں کا موقف ہے کہ نہ تو نیٹو سپلائی کی بندش کسی دباؤ کے تحت کی گئی تھی اور نہ ہی اس کی بحالی میں کسی دباؤ کو خاطر میں لایا گیا ہے۔
سب سے زیادہ منظم احتجاج 40 سے زائد مذہبی تنظیموں اور دائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی شخصیات کے دفاعِ پاکستان کونسل نامی اتحاد کی طرف سے کیا جا رہا ہے، جس نے لاہور سے اسلام آباد تک جلوس کے بعد ہفتہ اور اتوار کو کوئٹہ سے چمن تک اسی نوعیت کا احتجاج بھی کیا ہے۔
دفاعِ پاکستان کونسل نے اپنی احتجاجی تحریک کے سلسلے میں پشاور سے طورخم تک لانگ مارچ کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
چمن اور طورخم وہ دو سرحدی گزر گاہیں ہیں جہاں سے نیٹو قافلے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔
لانگ مارچ نامی ان جلوسوں کی قیادت کرنے والوں میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے حافظ محمد سعید بھی شامل ہیں۔
حافظ سعید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستانی عوام میں امریکہ مخلاف جذبات بھڑکے ہیں جنھیں کونسل منظم کر رہی ہے تاکہ اُن کے بقول ملکی معاملات میں امریکی مداخلت کو ختم کیا جا سکے۔
’’اس حکومت نے پارلیمان کی قرار داد کے خلاف سپلائی بحال کی ہے، اس نے قرار داد کو پس پشت ڈالا ہے، ہم اس (بحالی) کو جمہوری فیصلہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ پاکستان پر امریکی دباؤ کے تحت مسلط کیا جا رہا ہے۔‘‘
اُدھر ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے اتوار کو کراچی میں نیٹو سپلائی لائنز بحال کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا، جس میں جماعت کے امیر منور حسن سمیت دیگر رہنما بھی شریک ہوئے۔
جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے امریکہ مخالف تقاریر کیں اور کہا کہ رسد کی بحالی پاکستانی عوام کو ’’نامنظور‘‘ ہے۔
نومبر میں سلالہ چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت پر فوری ردِ عمل میں پاکستان نے احتجاجاً اپنی سر زمین کے راستے امریکی و اتحادی افواج کو رسد کی ترسیل معطل کر دی تھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اپوزیشن مسلم لیگ (ن) بھی نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے جب کہ اپریل کے وسط میں پارلیمان میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرار داد میں مہلک ہتھیاروں کو چھوڑ کر ایندھن، خوراک اور دیگر ساز و سامان کی ترسیل کی شفارش کی گئی تھی۔ مگر قرار داد میں نیٹو رسد کی بحالی کو بظاہر امریکی ڈرون حملوں کی فی الفور بندش سے مشروط کیا گیا تھا۔
پاکستان نے سات ماہ کی بندش کے بعد تین جولائی کو نیٹو سپلائی لائنز بحال کر دی تھیں لیکن مستبقل میں کسی بحران سے بچنے کے لیے امریکہ کے ساتھ 10 سال بعد پہلی مرتبہ ایک تحریری معاہدے کے ذریعے دونوں ملکوں نے اس سلسلے کو تحفظ فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس ضمن میں جاری صلاح مشوروں کے سلسلے میں صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں اسلام اباد میں ہفتہ کی رات دیر گئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف اور بری فوج کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کے علاوہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمٰن نے بھی شرکت کی۔
مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ اجلاس میں نیٹو رسد سے متعلق مجوزہ مفاہمتی یاداشت کو حتمی شکل دی گئی، مگر سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تحریری معاہدے پر مستقبل قریب میں دستخط کا عندیہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں بھی دیا تھا۔
’’ہم مفاہمتی یاداشت سے متعلق داخلی معاملات کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور ہمیں اُمید ہے کہ اس (دستاویز) پر بہت جلد دستخط ہو جائیں گے۔‘‘
پاکستان میں جہاں ایک جانب طالبان عسکریت پسندوں نے نیٹو رسد سے لدے قافلوں پر حملوں کی دھمکی دی ہے وہیں ملک میں مذہبی تنظیموں اور حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے سپلائی لائنز کی بحالی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جس کا مقصد پاکستان کو امریکہ کے ساتھ اس کسی بھی طرح کے تحریری معاہدے سے باز رکھنا ہے۔
لیکن حکومت کے نمائندوں کا موقف ہے کہ نہ تو نیٹو سپلائی کی بندش کسی دباؤ کے تحت کی گئی تھی اور نہ ہی اس کی بحالی میں کسی دباؤ کو خاطر میں لایا گیا ہے۔
سب سے زیادہ منظم احتجاج 40 سے زائد مذہبی تنظیموں اور دائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی شخصیات کے دفاعِ پاکستان کونسل نامی اتحاد کی طرف سے کیا جا رہا ہے، جس نے لاہور سے اسلام آباد تک جلوس کے بعد ہفتہ اور اتوار کو کوئٹہ سے چمن تک اسی نوعیت کا احتجاج بھی کیا ہے۔
دفاعِ پاکستان کونسل نے اپنی احتجاجی تحریک کے سلسلے میں پشاور سے طورخم تک لانگ مارچ کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
چمن اور طورخم وہ دو سرحدی گزر گاہیں ہیں جہاں سے نیٹو قافلے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔
لانگ مارچ نامی ان جلوسوں کی قیادت کرنے والوں میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے حافظ محمد سعید بھی شامل ہیں۔
حافظ سعید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستانی عوام میں امریکہ مخلاف جذبات بھڑکے ہیں جنھیں کونسل منظم کر رہی ہے تاکہ اُن کے بقول ملکی معاملات میں امریکی مداخلت کو ختم کیا جا سکے۔
’’اس حکومت نے پارلیمان کی قرار داد کے خلاف سپلائی بحال کی ہے، اس نے قرار داد کو پس پشت ڈالا ہے، ہم اس (بحالی) کو جمہوری فیصلہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ پاکستان پر امریکی دباؤ کے تحت مسلط کیا جا رہا ہے۔‘‘
اُدھر ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے اتوار کو کراچی میں نیٹو سپلائی لائنز بحال کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا، جس میں جماعت کے امیر منور حسن سمیت دیگر رہنما بھی شریک ہوئے۔
جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے امریکہ مخالف تقاریر کیں اور کہا کہ رسد کی بحالی پاکستانی عوام کو ’’نامنظور‘‘ ہے۔
نومبر میں سلالہ چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت پر فوری ردِ عمل میں پاکستان نے احتجاجاً اپنی سر زمین کے راستے امریکی و اتحادی افواج کو رسد کی ترسیل معطل کر دی تھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اپوزیشن مسلم لیگ (ن) بھی نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے جب کہ اپریل کے وسط میں پارلیمان میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرار داد میں مہلک ہتھیاروں کو چھوڑ کر ایندھن، خوراک اور دیگر ساز و سامان کی ترسیل کی شفارش کی گئی تھی۔ مگر قرار داد میں نیٹو رسد کی بحالی کو بظاہر امریکی ڈرون حملوں کی فی الفور بندش سے مشروط کیا گیا تھا۔