وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے بقول پرویز مشرف کے خلاف مقدمات اور عدالت کے فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔
اسلام آباد —
پاکستان کی وزارت داخلہ نے بدھ کو سابق فوجی صدر کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’مفاد عامہ‘‘ کے پش نظر پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
رواں ہفتے غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی طرف سے اس متعلق لاتعلقی کے بیان کے بعد وزارت کو ایک درخواست دی گئی تھی کہ فوج کے سابق سربراہ کا نام ان افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے جن کے ملک چھوڑنے پر پابندی ہے۔
تاہم وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے بقول پرویز مشرف کے خلاف مقدمات اور عدالت کے فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان پر باہر جانے کی پابندی برقرار رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مشرف کے وکیل فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اس پابندی کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کریں گے۔
’’اگر عدالت کہتی ہے کہ وہ آزاد ہیں اور انہیں عدالت میں پیش ہونے سے بھی اسثنا دیا جاتا ہے تو پھر حکومت کون ہوتی ہے عدالت سے بڑھ کر عدالتی فیصلے نافذ کرنے والی۔ یہ کوئی بات خیرات کی نہیں۔ بنیادی حقوق اور قانون کی بالادستی کی ہے۔‘‘
پرویز مشرف رواں ہفتے اپنے خلاف غداری کی کارروائی کی سماعت کرنے والی تین رکنی عدالت کو کہہ چکے ہیں کہ وہ شارجہ میں اپنی علیل والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عدالت نے سابق صدر کے خلاف آئین شکنی کے الزامات پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نے پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے پر قدغن نہیں لگائی۔
ادھر عدالت کے فیصلے کے بعد کابینہ کے چند اراکین پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے ریلوے سعد رفیق کا پارلیمان کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’مشرف صاحب کو جو ہونا ہے اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن اگر وہ ملک سے باہر گئے اور کل عدالت نے بلا لیا تو انہیں پیش کرنے کی ذمہ داری تو حکومت کی ہے نا۔ تو ہم انہیں کہاں سے لائیں گے؟‘‘
خصوصی عدالت نے پیر کو سابق صدر کو غداری کے مقدمے کی کارروائی میں پیش ہونے سے بھی استثنا دے دی تھی۔
فروغ نسیم وفاقی وزیر کے خدشے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اگر انہوں نے بھاگنا ہوتا تو آتے ہی کیوں؟ دوسرا اگر خدانخواستہ ضرورت پڑی تو اب قانونی طریقوں سے انہیں بلایا جا سکتا ہے۔‘‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ 2007 میں آئین معطل کرنے کا فیصلہ فرد واحد کا نہیں تھا اور پاکستان فوج ان کے خلاف ہونے والی کارروائی پر نالاں ہے۔
رواں ہفتے غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی طرف سے اس متعلق لاتعلقی کے بیان کے بعد وزارت کو ایک درخواست دی گئی تھی کہ فوج کے سابق سربراہ کا نام ان افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے جن کے ملک چھوڑنے پر پابندی ہے۔
تاہم وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے بقول پرویز مشرف کے خلاف مقدمات اور عدالت کے فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان پر باہر جانے کی پابندی برقرار رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مشرف کے وکیل فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اس پابندی کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کریں گے۔
’’اگر عدالت کہتی ہے کہ وہ آزاد ہیں اور انہیں عدالت میں پیش ہونے سے بھی اسثنا دیا جاتا ہے تو پھر حکومت کون ہوتی ہے عدالت سے بڑھ کر عدالتی فیصلے نافذ کرنے والی۔ یہ کوئی بات خیرات کی نہیں۔ بنیادی حقوق اور قانون کی بالادستی کی ہے۔‘‘
پرویز مشرف رواں ہفتے اپنے خلاف غداری کی کارروائی کی سماعت کرنے والی تین رکنی عدالت کو کہہ چکے ہیں کہ وہ شارجہ میں اپنی علیل والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عدالت نے سابق صدر کے خلاف آئین شکنی کے الزامات پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نے پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے پر قدغن نہیں لگائی۔
ادھر عدالت کے فیصلے کے بعد کابینہ کے چند اراکین پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے ریلوے سعد رفیق کا پارلیمان کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’مشرف صاحب کو جو ہونا ہے اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن اگر وہ ملک سے باہر گئے اور کل عدالت نے بلا لیا تو انہیں پیش کرنے کی ذمہ داری تو حکومت کی ہے نا۔ تو ہم انہیں کہاں سے لائیں گے؟‘‘
خصوصی عدالت نے پیر کو سابق صدر کو غداری کے مقدمے کی کارروائی میں پیش ہونے سے بھی استثنا دے دی تھی۔
فروغ نسیم وفاقی وزیر کے خدشے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اگر انہوں نے بھاگنا ہوتا تو آتے ہی کیوں؟ دوسرا اگر خدانخواستہ ضرورت پڑی تو اب قانونی طریقوں سے انہیں بلایا جا سکتا ہے۔‘‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ 2007 میں آئین معطل کرنے کا فیصلہ فرد واحد کا نہیں تھا اور پاکستان فوج ان کے خلاف ہونے والی کارروائی پر نالاں ہے۔