سابق فوجی صدر نے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے بیان میں کہا ’’حقیقی تحفظات اور تاثر ہے کہ موجودہ عدلیہ کے تحت ہمارے موکل کا فیئر ٹرائل نہیں ہوگا اور ان کے 1999 کے اقدامات سے براہ راست متاثر ہونے والا شخص (میاں نواز شریف) بھی اب مقننہ کا سربراہ ہے۔‘‘
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنے ایک تحریری بیان میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ موجودہ حکومت اور عدلیہ کے تحت ان کے خلاف ہونے والی غداری کے مقدمے کی کارروائی شفاف نہیں ہوگی۔
جمعرات کو پرویز مشرف کے وکیل راجا محمد ابراہیم ستی نے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل اپنے خلاف آئین کے تحت غداری کے مقدمے کا سامنا کرنے سے خوف زدہ نہیں اگر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر ایک غیر جانبدار ٹربیونل یہ کارروائی کرے اور قانون کے مطابق انہیں دفاع کا حق فراہم کیا جائے۔
بیاں میں سابق صدر نے کہا ’’حقیقی تحفظات اور تاثر ہے کہ موجودہ عدلیہ کے تحت مدعا علیہ کا فیئر ٹرائل نہیں ہوگا اور ان کے 1999 کے اقدامات سے براہ راست متاثر ہونے والا شخص (میاں نواز شریف) بھی اب مقننہ کا سربراہ ہے۔‘‘
اس لیے ابراہیم ستی کی استدعا تھی کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے شفاف کارروائی سے متعلق پرویز مشرف کے حق دفاع کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے عدالت ان کے موکل کے ’’حقیقی تحفظات‘‘ اور اعتراضات پر غور کرے۔
فوج کے سابق سربراہ کے خلاف الزامات ہیں کہ انہوں نے 2007ء میں آئین توڑا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے ججوں کو نظر بند کیا۔ ان الزامات پر ان کے خلاف غداری کا مقمہ چلانے کی متعدد درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
سماعت کے بعد پرویز مشرف کے ایک اور وکیل قمر افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’قبل از ٹرائل کے جو ہمارے حقوق ہیں پہلے وہ تو دیں۔ شفاف کارروائی کا مطلب ہے مکمل کارروائی۔ یہ جو آج سب کچھ ہورہا ہے یہ قانونی نہیں جس سے ہم پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اگر انہوں نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ دیا تو ہمارے حق کی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا آغاز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مستفعی ہونے کے بعد کیا جائے۔ سابق فوجی صدر نے مارچ 2007ء میں چیف جسٹس کو بدعنوانی کے الزامات پر فارغ کرنے کی کوشش کی تھی جس کے خلاف وکلاء نے ملک بھر میں احتجاجی مہم شروع کی تھی۔
عدالت اعظمیٰ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو مکمل طور پر اس بات کا ادراک ہے کہ کسی بھی طرح پرویز مشرف کے حقوق کی خلاف ورزی نا ہو۔
ادھر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ وزیراعظم کی گزشتہ روز کی ہدایت پر پرویز مشرف کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی چار رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
درخواست گزاروں کی طرف سے عدالت میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزامات سے متعلق تحقیقات کے مکمل کرنے کے لیے کوئی وقت متعین کرے۔ درخواست گزار وکیل توفیق آصف کہتے ہیں۔
’’ہمیں فکر ہے کہ یہ عمل لمبا نا ہو جائے۔ اس ایک معقول مدت میں ختم ہونا چاہیے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم پرویز مشرف کے خلاف اتنے شواہد ہیں کہ دیگر افراد کے خلاف تحقیقات کے اختتام تک مشرف کے خلاف کارروائی مکمل ہو جانی چاہیے۔‘‘
اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو تحقیقات مکمل کرنے کا حتمی وقت بتانے سے گریز کیا تاہم انہوں نے کہا کہ تحقیقات کا دورانیہ غیر معینہ مدت تک نہیں ہوگا۔ وہ پہلے عدالت عظمیٰ کو کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت پرویز مشرف سمیت مبینہ آئین توڑنے کے عمل میں ملوث تمام فراد کے خلاف کارروائی شروع کرے گی۔
منیر اے ملک نے جمعرات کی سماعت میں یہ بھی واضح کیا کہ غداری کے مقدمے کے لیے مخصوص ٹربیونل کسی دوسرے مقدمے کو نہیں نمٹائے گا۔ عدالت نے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
جمعرات کو پرویز مشرف کے وکیل راجا محمد ابراہیم ستی نے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل اپنے خلاف آئین کے تحت غداری کے مقدمے کا سامنا کرنے سے خوف زدہ نہیں اگر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر ایک غیر جانبدار ٹربیونل یہ کارروائی کرے اور قانون کے مطابق انہیں دفاع کا حق فراہم کیا جائے۔
بیاں میں سابق صدر نے کہا ’’حقیقی تحفظات اور تاثر ہے کہ موجودہ عدلیہ کے تحت مدعا علیہ کا فیئر ٹرائل نہیں ہوگا اور ان کے 1999 کے اقدامات سے براہ راست متاثر ہونے والا شخص (میاں نواز شریف) بھی اب مقننہ کا سربراہ ہے۔‘‘
اس لیے ابراہیم ستی کی استدعا تھی کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے شفاف کارروائی سے متعلق پرویز مشرف کے حق دفاع کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے عدالت ان کے موکل کے ’’حقیقی تحفظات‘‘ اور اعتراضات پر غور کرے۔
فوج کے سابق سربراہ کے خلاف الزامات ہیں کہ انہوں نے 2007ء میں آئین توڑا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے ججوں کو نظر بند کیا۔ ان الزامات پر ان کے خلاف غداری کا مقمہ چلانے کی متعدد درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
سماعت کے بعد پرویز مشرف کے ایک اور وکیل قمر افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’قبل از ٹرائل کے جو ہمارے حقوق ہیں پہلے وہ تو دیں۔ شفاف کارروائی کا مطلب ہے مکمل کارروائی۔ یہ جو آج سب کچھ ہورہا ہے یہ قانونی نہیں جس سے ہم پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اگر انہوں نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ دیا تو ہمارے حق کی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا آغاز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مستفعی ہونے کے بعد کیا جائے۔ سابق فوجی صدر نے مارچ 2007ء میں چیف جسٹس کو بدعنوانی کے الزامات پر فارغ کرنے کی کوشش کی تھی جس کے خلاف وکلاء نے ملک بھر میں احتجاجی مہم شروع کی تھی۔
عدالت اعظمیٰ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو مکمل طور پر اس بات کا ادراک ہے کہ کسی بھی طرح پرویز مشرف کے حقوق کی خلاف ورزی نا ہو۔
ادھر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ وزیراعظم کی گزشتہ روز کی ہدایت پر پرویز مشرف کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی چار رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
درخواست گزاروں کی طرف سے عدالت میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزامات سے متعلق تحقیقات کے مکمل کرنے کے لیے کوئی وقت متعین کرے۔ درخواست گزار وکیل توفیق آصف کہتے ہیں۔
’’ہمیں فکر ہے کہ یہ عمل لمبا نا ہو جائے۔ اس ایک معقول مدت میں ختم ہونا چاہیے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم پرویز مشرف کے خلاف اتنے شواہد ہیں کہ دیگر افراد کے خلاف تحقیقات کے اختتام تک مشرف کے خلاف کارروائی مکمل ہو جانی چاہیے۔‘‘
اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو تحقیقات مکمل کرنے کا حتمی وقت بتانے سے گریز کیا تاہم انہوں نے کہا کہ تحقیقات کا دورانیہ غیر معینہ مدت تک نہیں ہوگا۔ وہ پہلے عدالت عظمیٰ کو کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت پرویز مشرف سمیت مبینہ آئین توڑنے کے عمل میں ملوث تمام فراد کے خلاف کارروائی شروع کرے گی۔
منیر اے ملک نے جمعرات کی سماعت میں یہ بھی واضح کیا کہ غداری کے مقدمے کے لیے مخصوص ٹربیونل کسی دوسرے مقدمے کو نہیں نمٹائے گا۔ عدالت نے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔