وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ نئی تحقیقات اور شواہد سے پرویز مشرف کے خلاف خدشات کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا نام بے نظیر بھٹو قتل کے مرکزی ملزمان میں شامل کردیا ہے۔
راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں منگل کو پیش کئے گئے چالان میں ایف آئی اے نے پرویز مشرف پر الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ سابق وزیرِاعظم کے قتل کی سازش میں ملوث یا اس میں معاون تھے۔
وکیل استغاثہ محمد اظہر چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ نیا چالان پرویز مشرف کی وطن واپسی پر ہونے والی تحقیقات کی بنیاد پر دائر کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی صفائی میں تحقیقاتی ٹیم کو مطمئین نہیں کر پائے۔
’’اس چالان میں سابق سیکرٹری داخلہ کا بیان ہے کہ انہوں نے صدر کو بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی سے متعلق درخواست دی مگر انہوں نے چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز کو تو سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا مگر بے نظیر کے لیے نہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نئی تحقیقات اور شواہد سے پرویز مشرف کے خلاف خدشات کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔
وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے انہیں سکیورٹی فراہم نا کرنے کی وجہ سے وہ بے نظیر قتل کیس کی بھر پور طریقے سے پیروی کرنے سے قاصر ہیں۔ اس مقدمے میں اظہر چوہدری کے ساتھی وکیل چوہدری ذوالفقار اس سے پہلے مئی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
اظہر چوہدری کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی بھر پور طریقے سے پیروی کے ذریعے عدالتی کارروائی میں تیزی لاتے ہوئے جلد ہی سابق صدر پر فرد جرم عائد ہوسکتی ہے۔
صدر آصف علی زرداری کی زوجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کو 2007ء میں انتخابی جلسے سے واپسی پر راولپنڈی میں ایک خود کش حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام کالعدم شدت پسند تنظیم کے سربراہ بیت اللہ محسود کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں۔ اگست 2009ء میں ایک امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود جنوبی وزیرستان میں مارا گیا تھا۔
پرویز مشرف کو بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل اور 2007ء میں ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز ہی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ وہ آئین توڑنے پر پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اور اس عمل میں ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے پر عزم ہے۔
میاں نواز شریف کی نو منتخب حکومت کے اس فیصلے پر سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین کا ردعمل ملا جلا رہا۔ سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس سے پنڈورا بکس کھلنے کا زیادہ خدشہ ہے۔
’’وزیراعظم نے کہا ہے تو کچھ سوچ کر کہا ہوگا۔ احتساب ہونا چاہئے ایسا نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ ملک میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کرنا چاہیے لیکن ایسے معاملات کہاں تک جائیں گے اور کیا ہم ان کا احاطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں یہ سوال اپنی جگہ پر ہے۔‘‘
حکومت کی طرف سے سیاسی سطح پر اعتماد سازی کے لیے مشاورتی عمل کے اعلان کی وجہ سے بعض مبصرین نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلنے پر شکوک کا اظہار کیا ہے جبکہ عدالت اعظمیٰ نے بھی اٹارنی جنرل سے اس کارروائی کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیلات کی رپورٹ رواں ہفتے طلب کی ہے۔
راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں منگل کو پیش کئے گئے چالان میں ایف آئی اے نے پرویز مشرف پر الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ سابق وزیرِاعظم کے قتل کی سازش میں ملوث یا اس میں معاون تھے۔
وکیل استغاثہ محمد اظہر چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ نیا چالان پرویز مشرف کی وطن واپسی پر ہونے والی تحقیقات کی بنیاد پر دائر کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی صفائی میں تحقیقاتی ٹیم کو مطمئین نہیں کر پائے۔
’’اس چالان میں سابق سیکرٹری داخلہ کا بیان ہے کہ انہوں نے صدر کو بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی سے متعلق درخواست دی مگر انہوں نے چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز کو تو سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا مگر بے نظیر کے لیے نہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نئی تحقیقات اور شواہد سے پرویز مشرف کے خلاف خدشات کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔
وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے انہیں سکیورٹی فراہم نا کرنے کی وجہ سے وہ بے نظیر قتل کیس کی بھر پور طریقے سے پیروی کرنے سے قاصر ہیں۔ اس مقدمے میں اظہر چوہدری کے ساتھی وکیل چوہدری ذوالفقار اس سے پہلے مئی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
اظہر چوہدری کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی بھر پور طریقے سے پیروی کے ذریعے عدالتی کارروائی میں تیزی لاتے ہوئے جلد ہی سابق صدر پر فرد جرم عائد ہوسکتی ہے۔
صدر آصف علی زرداری کی زوجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کو 2007ء میں انتخابی جلسے سے واپسی پر راولپنڈی میں ایک خود کش حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام کالعدم شدت پسند تنظیم کے سربراہ بیت اللہ محسود کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں۔ اگست 2009ء میں ایک امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود جنوبی وزیرستان میں مارا گیا تھا۔
پرویز مشرف کو بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل اور 2007ء میں ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز ہی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ وہ آئین توڑنے پر پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اور اس عمل میں ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے پر عزم ہے۔
میاں نواز شریف کی نو منتخب حکومت کے اس فیصلے پر سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین کا ردعمل ملا جلا رہا۔ سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس سے پنڈورا بکس کھلنے کا زیادہ خدشہ ہے۔
’’وزیراعظم نے کہا ہے تو کچھ سوچ کر کہا ہوگا۔ احتساب ہونا چاہئے ایسا نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ ملک میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کرنا چاہیے لیکن ایسے معاملات کہاں تک جائیں گے اور کیا ہم ان کا احاطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں یہ سوال اپنی جگہ پر ہے۔‘‘
حکومت کی طرف سے سیاسی سطح پر اعتماد سازی کے لیے مشاورتی عمل کے اعلان کی وجہ سے بعض مبصرین نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلنے پر شکوک کا اظہار کیا ہے جبکہ عدالت اعظمیٰ نے بھی اٹارنی جنرل سے اس کارروائی کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیلات کی رپورٹ رواں ہفتے طلب کی ہے۔