سابق صدر مشرف کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف انتخابات کے موقع پر ملک میں ہوں گے بلکہ ان میں وہ اور ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیں گے
ہر نیا دن پاکستان کو انتخابات سے قریب تر کررہا ہے۔ جوں جوں یہ دن قریب آرہے ہیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی راہنما وٴں کی تیاریاں زور پکڑتی جارہی ہیں۔ سال 2008ء کے انتخابات میں اہم ترین کردار اداکرنے والے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف بھی انتخابات کے اعلان سے اپنی وطن واپسی کو مشروط کئے بیٹھے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے رواں سال27سے 30 جنوری اور بعد ازاں 14اگست کو بھی اپنی وطن کی تاریخیں قرار دیا تھا لیکن وہ یہ وعدہ پورا نہیں کرپائے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہےکہ اب انہوں نے اپنی واپسی نئے انتخابات کے اعلان سے مشروط کردی ہے ۔سابق صدر مشرف کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف انتخابات کے موقع پر ملک میں ہوں گے بلکہ ان میں وہ اور ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے گی۔
لیکن زمینی حقائق ان کے اس دعوے سے یکسر مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ حقائق اشارہ کررہے ہیں کہ پرویز مشروف اس باربھی شاید اپنا وعدہ پورا نہیں کرپائیں گے۔ اگرچہ وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پنجاب کے ضلع قصور کی قومی اسمبلی کی نشست این اے139سے انتخاب لڑیں گے لیکن اس کے باوجود اس حلقے کے سرگرم سیاسی راہنماوٴں اور ماہر سیاسی تجزیہ نگاروں و تبصرہ نگاروں نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں اس امکان کو رد کردیا ہے۔
این اے 139قصور 2سے سن 2008میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار وسیم اختر شیخ 51391ووٹ لے کر پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے اپنے قریبی حریف چوہدری منظور احمد سے جیت گئے تھے۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ انتخابات لڑلنے کے لئے پاکستان آنا پہلی شرط ہے اور ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ مسٹر مشرف وطن واپس آئیں گے۔
ان کے وعدے کے وفا ہونے میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں ، اس پر تبصرہ نگاروں اور علاقہ باسیوں کا کہنا ہے کہ مشرف صاحب کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی میں شرکت کرنے والے بہت سے ارکان اب دوسری جماعتیں جوائن کرچکے ہیں لہذا اب انتخابات کی تیاری کون کرے گا۔
آل پاکستان مسلم لیگ ضلع قصور کے صدر رشید احمد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ورکرز اپنے قائد جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی کامیابی کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے۔۔۔لیکن مبصرین کے نزدیک ”زمینی حقائق یہ ہیں کہ آل پاکستان مسلم لیگ کا ملک کے کسی بھی حصے میں اب تک اپنا کوئی باقاعدہ دفتر قائم نہیں کرسکی ہے ، اور اگر کچھ دفاتر موجود بھی ہیں تو غیر فعال ہیں۔ “
قصور کی دو اور اہم نشتیں ہیں ،ان اے ایک این اے 138 ہے جہاں سے ن لیگ کے مظہر حیات خان اپنی جماعت کے مضبوط امیدوار رہے ہیں ۔ دوسری این اے 140ہے ۔ اس نشست کے لئے پہلے ہی سردار آصف احمد علی اور پرویز دور کے ہی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری میں رسہ کشی رہتی ہے۔ ایسے میں بغیر کسی تیاری کے انتخاب لڑنا ماہرین کے نزدیک ایک خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی 170 کے قریب چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات29 اگست تک جمع کرانے کا حکم دیا تھا، لیکن ان میں سے چند ہی پارٹیاں اب تک اس حکم کی تعمیل کرسکی ہیں جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، مسلم لیگ قاف اور جماعت اسلامی سمیت40سیاسی جماعتیں شامل ہیں لیکن ان میں آل پاکستان مسلم لیگ کا نام کہیں شامل نہیں ۔
اگرچہ کوئی بھی 100 فی صد یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ پرویز مشرف واپس نہیں آئیں گے، لیکن ان کے مجوزہ انتخابی حلقوں کے زمینی حقائق کے علاوہ ان کی گرفتاری کے وارنٹس کا اجرا، اکبر بگٹی کے صاحبزادوں کا انہیں آڑے ہاتھوں لینے کا اعلان ، اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف آپریشن پر ناراض مذہبی و دینی جماعتوں کی مخالفت اور طالبان عناصر سے دشمنی ۔۔جیسے پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھاجائے تو بظاہر یہ ممکن پرویز مشرف کا انتخابات میں بھرپور حصہ لینا مشکل دکھائی دیتاہے۔
اگر وہ وطن لوٹ بھی آئیں تو بھی انہیں اندرون ملک انتہائی مشکل حالات اور مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور بلوچ راہنما نواب زادہ اکبر بگٹی کی ہلاکت کے ساتھ ہی سابق صدر پرویز مشرف کے سیاسی کردار کی بھی موت واقع ہوگئی تھی۔بلوچ قوم پرست اپنے مخالفین کو سدا یاد رکھتے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے رواں سال27سے 30 جنوری اور بعد ازاں 14اگست کو بھی اپنی وطن کی تاریخیں قرار دیا تھا لیکن وہ یہ وعدہ پورا نہیں کرپائے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہےکہ اب انہوں نے اپنی واپسی نئے انتخابات کے اعلان سے مشروط کردی ہے ۔سابق صدر مشرف کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف انتخابات کے موقع پر ملک میں ہوں گے بلکہ ان میں وہ اور ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے گی۔
لیکن زمینی حقائق ان کے اس دعوے سے یکسر مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ حقائق اشارہ کررہے ہیں کہ پرویز مشروف اس باربھی شاید اپنا وعدہ پورا نہیں کرپائیں گے۔ اگرچہ وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پنجاب کے ضلع قصور کی قومی اسمبلی کی نشست این اے139سے انتخاب لڑیں گے لیکن اس کے باوجود اس حلقے کے سرگرم سیاسی راہنماوٴں اور ماہر سیاسی تجزیہ نگاروں و تبصرہ نگاروں نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں اس امکان کو رد کردیا ہے۔
این اے 139قصور 2سے سن 2008میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار وسیم اختر شیخ 51391ووٹ لے کر پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے اپنے قریبی حریف چوہدری منظور احمد سے جیت گئے تھے۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ انتخابات لڑلنے کے لئے پاکستان آنا پہلی شرط ہے اور ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ مسٹر مشرف وطن واپس آئیں گے۔
ان کے وعدے کے وفا ہونے میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں ، اس پر تبصرہ نگاروں اور علاقہ باسیوں کا کہنا ہے کہ مشرف صاحب کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی میں شرکت کرنے والے بہت سے ارکان اب دوسری جماعتیں جوائن کرچکے ہیں لہذا اب انتخابات کی تیاری کون کرے گا۔
آل پاکستان مسلم لیگ ضلع قصور کے صدر رشید احمد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ورکرز اپنے قائد جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی کامیابی کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے۔۔۔لیکن مبصرین کے نزدیک ”زمینی حقائق یہ ہیں کہ آل پاکستان مسلم لیگ کا ملک کے کسی بھی حصے میں اب تک اپنا کوئی باقاعدہ دفتر قائم نہیں کرسکی ہے ، اور اگر کچھ دفاتر موجود بھی ہیں تو غیر فعال ہیں۔ “
قصور کی دو اور اہم نشتیں ہیں ،ان اے ایک این اے 138 ہے جہاں سے ن لیگ کے مظہر حیات خان اپنی جماعت کے مضبوط امیدوار رہے ہیں ۔ دوسری این اے 140ہے ۔ اس نشست کے لئے پہلے ہی سردار آصف احمد علی اور پرویز دور کے ہی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری میں رسہ کشی رہتی ہے۔ ایسے میں بغیر کسی تیاری کے انتخاب لڑنا ماہرین کے نزدیک ایک خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی 170 کے قریب چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات29 اگست تک جمع کرانے کا حکم دیا تھا، لیکن ان میں سے چند ہی پارٹیاں اب تک اس حکم کی تعمیل کرسکی ہیں جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، مسلم لیگ قاف اور جماعت اسلامی سمیت40سیاسی جماعتیں شامل ہیں لیکن ان میں آل پاکستان مسلم لیگ کا نام کہیں شامل نہیں ۔
اگرچہ کوئی بھی 100 فی صد یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ پرویز مشرف واپس نہیں آئیں گے، لیکن ان کے مجوزہ انتخابی حلقوں کے زمینی حقائق کے علاوہ ان کی گرفتاری کے وارنٹس کا اجرا، اکبر بگٹی کے صاحبزادوں کا انہیں آڑے ہاتھوں لینے کا اعلان ، اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف آپریشن پر ناراض مذہبی و دینی جماعتوں کی مخالفت اور طالبان عناصر سے دشمنی ۔۔جیسے پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھاجائے تو بظاہر یہ ممکن پرویز مشرف کا انتخابات میں بھرپور حصہ لینا مشکل دکھائی دیتاہے۔
اگر وہ وطن لوٹ بھی آئیں تو بھی انہیں اندرون ملک انتہائی مشکل حالات اور مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور بلوچ راہنما نواب زادہ اکبر بگٹی کی ہلاکت کے ساتھ ہی سابق صدر پرویز مشرف کے سیاسی کردار کی بھی موت واقع ہوگئی تھی۔بلوچ قوم پرست اپنے مخالفین کو سدا یاد رکھتے ہیں۔