پاکستان کی حکومت اس مالی سال کے دوران اپنا تیسرا منی بجٹ پیش کرنے والی ہے جو مجموعی طور پر اس سال کا چوتھا بجٹ ہو گا، کیونکہ ایک بجٹ مسلم لیگ کی سابقہ حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت کے اختتام پر پیش کر دیا تھا۔
یہ بجٹ کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں اور اثرات کیا ہوں گے، اس بارے میں ہمارے ساتھی قمر عباس جعفری نے دو اقتصادی ماہرین, پاکستان کی وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن اور فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل کے ڈاکٹر ایوب مہر سے گفتگو کی۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ ایک سال میں چار بجٹ ایک انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک سال میں چار بجٹ آئے ہوں۔ پہلا بجٹ سابقہ حکومت نے جانے سے پہلے دیا، جس کا مقصد آنے والی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنا تھا جو جانے والوں نے بڑی کامیابی سے پیدا کر دیں اور نئی حکومت اب ان مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔
اس کے بعد نئی حکومت کو موقع ملا تو اس نے ستمبر میں روائتی انداز کا بجٹ پیش کیا حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس وقت جو چیلنجز درپیش تھے جن میں سر فہرست توازن ادائیگی کا چیلنج تھا، اسے سامنے رکھ کر یہ بجٹ بنایا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ بیشتر ماہرین کو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ جو اہداف بجٹ میں رکھے گئے ہیں وہ غیر منطقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پھر اکتوبر میں 700 سے زیادہ اشیاء پر ڈیوٹی بڑھائی گئی۔ اگر یہ کام ستمبر کے بجٹ میں کر لیا جاتا تو پھر سال کا چوتھا اور اس حکومت کا تیسرا بجٹ لانے کی ضرورت نہ پڑتی۔
انہوں نے کہا کہ قسطوں میں اقدامات کرنے سے نقصان ہوتا ہے اور خاص طور سے فنانشل منجمنٹ کے حوالے سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
اس بجٹ کے کیا اثرات ہوں گے؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ عام طور پر منی بجٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نئے ٹیکس لگائے جانے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس چوتھے بجٹ کا تعلق آئی ایم ایف کے مطالبات سے ہے، تو انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانے کے خلاف اور اس بات کے حامی ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے بغیر جینا سیکھنا چاہئے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اب تک جتنے بھی اقدامات کئے ہیں، جن میں کرنسی کی قیمت میں کمی سے لے کر شرح سود میں خاصا اضافہ اور اب منی بجٹ، جس کے ذریعے ریونیو بڑھانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں، یہ سارے اقدامات وہ ہیں جو آئی ایم ایف کے عہدے دار جب وہ نومبر میں یہاں تھے، حکومت کو بتا کر گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا یوں تو حکومت نے یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ فی الحال وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جا رہی ہے۔ لیکن میرے خیال میں انہوں نے آئی ایم ایف سے وقت مانگا ہے کہ آہستہ آہستہ ہم آپ کے تجویز کردہ اقدامات کو نافذ کر دیں گے اور جب بات کریں گے تو شرائط تو پہلے ہی سے نافذ ہوں گی اور وہ کاغذ پر درج نہیں ہوں گی۔
ڈاکٹر اشفاق نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ حکمت عملی کا حصہ ہو۔ تاہم اس بارے میں حکومتی حلقے کچھ کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ڈاکٹر ایوب مہر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں حکومت کا تیسرا بجٹ لانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کئے جائیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سبب یہ ہے معیشت کے حوالے سے حکومت نے عجلت میں سوچے سمجھے بغیر اقدامات کئے۔ ان کے نتائج کیا نکلیں گے،اس پر غور نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک جانب تو وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم بجٹ میں ملوث ہوتے ہیں جنہیں وزیر اعظم کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے، دوسری جانب ایک اقتصادی کونسل بھی بنادی گئی ہے جو کفایت شعاری وغیرہ کے اقدامات کی بات کرتی ہے۔ تیسرے پاکستان تحریک انصاف کے اپنے اقتصادی اہداف اور ان اہداف کو طے کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ تینوں گروپ ایک پیج پر نہیں ہیں جس کے سبب یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔
ڈاکٹر ایوب مہر کا کہنا تھا کہ جب سابقہ حکومت نے بجٹ دیا تھا تو اسی وقت ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ اس کے بعد لازمی طور پر ایک منی بجٹ لانا پڑے گا، کیونکہ اس میں جو چھوٹ عام لوگوں اور بیورو کریسی کو دی گئی تھی، وہ غیر حقیقت پسندانہ تھی اور جو اخراجات بڑھائے گئے تھے ان کے لئے رقوم کی فراہمی ممکن نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اس کے بعد موجودہ حکومت بھی بے یقینی کی صورت حال سے دوچار رہی۔ اور اس نے اپنے دوسرے اور تیسرے بجٹ میں جو اہداف مقرر کئے تھے وہ حاصل نہ ہو سکے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اب سال کا چوتھا بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5