عدالتِ عظمیٰ نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف میمو گیٹ کیس میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ کے سیکرٹریز کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت میں حسین حقانی کی گرفتاری سے متعلق پیش رفت کے بارے میں موجود حکام سے استفسار کیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف آئی اے' کے عہدیدار نے عدالت کو بتایا کہ اس بارے میں متعلقہ وزارتوں کو خطوط لکھے جا چکے ہیں جب کہ حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور ان کے وارنٹ کے اجرا کے لیے معاملہ چل رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وزارتِ خارجہ کو واشنگٹن میں واقع پاکستانی سفارت خانے سے دستاویزات موصول ہونی ہیں۔
اس پر چیف جسٹ نے ریمارکس دیے کہ ایک بندہ عدالت کو یقین دہانی کرا کے ملک سے کیسے بھاگ کیا؟ یہ اب عدالت کی عزت کا معاملہ ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر درج ہوچکی ہے اور تحقیقات جاری ہیں اور اس بابت کچھ ریکارڈ واشنگٹن سے منگوانا ہے جس کے ملنے پر تحقیقات میں پیش رفت ہوگی۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حسین حقانی کو پاکستان لانے کے لیے حکومتی اقدام سے عدالت مطمئن نہیں اور اب تک اس معاملے میں جو کچھ ہوا وہ صرف نظر کا دھوکا ہے۔
انھوں نے بدھ تک تمام دستاویزات مکمل کر کے داخلہ اور خارجہ کی وزارتوں کے سیکرٹریز کو ذاتی حیثیت میں بینچ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔
میموگیٹ اسکینڈل 2011ء میں اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں اس وقت واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ایک خفیہ میمو امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کا کہا تھا۔
اس خط میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد مبینہ طور پر پاکستانی حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی بغاوت روکنے کے لیے امریکہ سے مدد کی درخواست کی گئی تھی۔
حسین حقانی نے اس معاملے کے منظرِ عام پر آنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا جب کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی بنایا گیا تھا جس کی رپوٹ کے مطابق یہ خط حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔