یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہوا جب ایک روز قبل ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے چالیس روزہ فائربندی میں توسیع نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اسلام آباد —
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہوا جس میں ملک کو درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز، خاص طور پر طالبان سے مذاکرات پر بات چیت کی گئی۔
کمیٹی نے داخلی سلامتی کو بہتر بنانے اور امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے پر اتفاق کیا۔
سلامتی کمیٹی کا یہ تیسرا اجلاس ایسے وقت ہوا جب ایک روز قبل ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ’فائر بندی‘ میں توسیع نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے شرکاء کو داخلی سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دی جب کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات، بلوچستان اور مغربی سرحد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں کمیٹی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے حکومتی عزم کا اعادہ بھی کیا۔
بیان کے مطابق کمیٹی نے افغانستان میں ہونے والے تازہ صدارتی انتخابات کے تناظر میں اس ملک سے تعلقات اور بھارت میں جاری عام انتخابات کے پس منظر میں اس ہمسایہ ملک سے روابط پر بھی بحث کی۔
سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ قومی سلامتی کی کمیٹی ایک ایسا بڑا فورم ہے جہاں ریاستی اداروں کو قومی سلامتی سے متعلق فیصلوں کے لیے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا موقع ملتا ہے۔
اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام، وفاقی وزراء برائے دفاع، داخلہ اور خزانہ سمیت دیگر متعلقہ عسکری و سیاسی عہدیداروں نے شرکت کی۔
نواز شریف انتظامیہ نے تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے کے بعد رواں سال کے اوائل میں طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تھا لیکن اس دوران ابھی تک سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کے ارکان کی صرف ایک براہ راست ملاقات ہو سکی ہے۔
طالبان نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے جنگ بندی کے دوران ان کے ساتھیوں کو ہلاک کیا جاتا رہا، پیس زون کے قیام اور غیر عسکری قیدیوں کے رہائی جیسے ان کے مطالبات کا بھی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے اور جلد ہی طالبان کے ساتھ سرکاری کمیٹی کی دوسری ملاقات بھی ہوگی۔
دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے اور ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے شروع کیے گئے مذاکرات پر ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں میں ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے۔
بدھ ہی کو وزیراعظم نوازشریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما و سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی طالبان سے مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
کمیٹی نے داخلی سلامتی کو بہتر بنانے اور امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے پر اتفاق کیا۔
سلامتی کمیٹی کا یہ تیسرا اجلاس ایسے وقت ہوا جب ایک روز قبل ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ’فائر بندی‘ میں توسیع نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے شرکاء کو داخلی سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دی جب کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات، بلوچستان اور مغربی سرحد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں کمیٹی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے حکومتی عزم کا اعادہ بھی کیا۔
بیان کے مطابق کمیٹی نے افغانستان میں ہونے والے تازہ صدارتی انتخابات کے تناظر میں اس ملک سے تعلقات اور بھارت میں جاری عام انتخابات کے پس منظر میں اس ہمسایہ ملک سے روابط پر بھی بحث کی۔
سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ قومی سلامتی کی کمیٹی ایک ایسا بڑا فورم ہے جہاں ریاستی اداروں کو قومی سلامتی سے متعلق فیصلوں کے لیے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا موقع ملتا ہے۔
اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام، وفاقی وزراء برائے دفاع، داخلہ اور خزانہ سمیت دیگر متعلقہ عسکری و سیاسی عہدیداروں نے شرکت کی۔
نواز شریف انتظامیہ نے تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے کے بعد رواں سال کے اوائل میں طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تھا لیکن اس دوران ابھی تک سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کے ارکان کی صرف ایک براہ راست ملاقات ہو سکی ہے۔
طالبان نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے جنگ بندی کے دوران ان کے ساتھیوں کو ہلاک کیا جاتا رہا، پیس زون کے قیام اور غیر عسکری قیدیوں کے رہائی جیسے ان کے مطالبات کا بھی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے اور جلد ہی طالبان کے ساتھ سرکاری کمیٹی کی دوسری ملاقات بھی ہوگی۔
دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے اور ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے شروع کیے گئے مذاکرات پر ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں میں ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے۔
بدھ ہی کو وزیراعظم نوازشریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما و سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی طالبان سے مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔