انڈونیشیا میں سزائے موت کے منتظر ایک پاکستانی قیدی میں جگر کے سرطان کی تشخیص ہوئی ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق مرض اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب اس کا علاج ممکن نہیں۔
اندرون اور بیرون ملک قید پاکستانی شہریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'جسٹس پراجیکٹ پاکستان' نے ایک بیان میں قیدی ذوالفقار علی کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ڈاکٹروں نے مرض کی صورتِ حال کے پیش نظر کہا ہے کہ یہ مریض صرف تین ماہ تک ہی زندہ رہ سکتا ہے۔
53 سالہ ذوالفقار علی کو 2004ء میں جکارتہ میں پولیس نے ہیروئن رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی تھی۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رواں ہفتے انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو کے دورۂ پاکستان کے دوران اس معاملے پر ان سے بات کرے۔
ذوالفقارعلی کا معاملہ جولائی 2016ء میں اس وقت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا تھا جب انڈونیشیا نے ان سمیت 14 مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا۔
لیکن پاکستان کی حکومت نے اس معاملے پر انڈونیشیا کے حکام سے بات چیت کی جس کے بعد ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عمل درآمد مؤخر کر دیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ذوالفقار علی ایک عرصے سے جگر اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا چلے آ رہے تھے اور جیل کے باہر نجی طور پر اسپتال سے علاج پر آنے والے اخراجات بھی انھیں خود ہی برداشت کرنا پڑ رہے تھے۔
اب تک ان کے علاج پر 37 ہزار ڈالر تک کا خرچ آ چکا ہے جس میں سے کچھ رقم پاکستانی دفترِ خارجہ نے ادا کی ہے۔