سعودی عرب نے پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی خریداری کے لیے دی جانے والی سہولت میں توسیع دینے کا عندیہ دیا ہے جب کہ ریاض نے اسلام آباد کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے فراہم کردہ تین ار ب ڈالر کی مالی معاونت کی مدت میں بھی توسیع کا اشارہ دیا ہے۔
اس بات کا اعلان وزیرِ اعظم شہباز شریف کے سعودی عرب کے دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔
رواں سال 10 اپریل کو وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے 28 سے 30 اپریل تک سعودی عرب کا پہلا دورہ کیا جس میں انہوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ سعودی حکام سے ملاقاتیں کیں۔
سعودی عرب کے طرف سے پاکستان کو مالی معاونت فراہم کرنے کی بات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالیاتی اور تجارتی خسارے کی وجہ سے سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے سعودی عرب کے دورے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ریاض سے اسلام آباد کو مزید مالی معاونت فراہم کرنے کی درخواست کی جائے تاکہ پاکستان کو درپیش تجارتی اور مالی خسارے کے معاملے سے نمٹا جا سکے۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ سال اکتوبر میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت ریاض نے اسلام آباد کو چار ارب 20 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سعودی عرب کی فراہم کردہ اس مالی معاونت میں وہ تین ارب ڈالر بھی شامل تھے جو اس نے پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے پاس رکھوائے تھے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے پاکستان کو تیل کی مؤخر ادائیگی پر تیل کی خریداری کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی سہولت فراہم کی تھی ۔
سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کا مزید معالی معاونت کرنے کے عزم کا اسلام آباد نے خیر مقدم کیا ہے البتہ پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ ابھی تک سعودی عرب کے طرف سے واضح طور پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
تاحال یہ بات سامنے نہیں آئی کہ سعودی عرب کی پاکستان کو مستقبل میں فراہم کی جانے والی مالی معاونت کا حجم کیا ہو گا تاہم حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اگر معاملات طے ہو جاتے ہیں توامکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اس معاونت کا مجموعی حجم سات ارب ڈالرز سے تجاوز کر جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب گزشتہ سال سعودی عرب نے پاکستان کے تین ارب ڈالر کی قرض کی سہولت ایک سال کے لیے فراہم کی تھی تو اس وقت ریاض کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی یہ سہولت اسی وقت تک جاری رہ سکتی ہے جب تک پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا پروگرم فعال ہے۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب پاکستان کو مزید تین ارب ڈالرز کی سہولت فراہم کرتا ہے پھر بھی پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کے پیش نظر یہ رقم کافی نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ پاکستان کی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بھی بات چیت جاری ہے اور رواں ماہ عالمی ادارے کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کرے گا۔
حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ناصرف اپنے طور پر دور رس اصلاحات کرنی ہوں گی بلکہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ شرائط پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔
ان کے بقول بعض حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہیں، جن میں تیل اور بجلی کی قیمتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور بجٹ خسارہ کم کرنا بھی شامل ہے۔یہ شرائط بظاہر سخت نظر آتی ہیں لیکن پاکستان کے لیے اپنی معیشت کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کے سخت اقدمات کرنا اس کے اپنے مفاد میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے لیکن دوسری جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی تجویز مستر د کر دی ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ حکومت کی طرف سے رعایتی قیمت پر تیل کی فروخت کے معاملے پر تحفظات کاا ظہارکرتا رہا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ حکومت یہ رعایت جاری رکھتی ہے تو پاکستان کی معیشت پر مالی بوجھ بڑھتا جائے گا۔
پاکستان کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی حکا م سے تکنیکی امور پر بات چیت کے لیے وہ سعودی عرب میں ہی موجود ہیں جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کے بعد پاکستان پہنچ گئے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے وفد میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر وزرا شامل تھے۔دورے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق سعودی عرب نے پاکستان کی معیشت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے پاک سعودی بزنس کونسل کے اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تعاون جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے ۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کار اور سابق حکومت کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن عابد سلہری کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت پہلے ہی پاکستان کوفراہم کردہ مالی معاونت میں توسیع دینے کا عندیہ دے چکی تھی البتہ ان کے بقول وہ صرف پاکستان میں حکومت کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
عابدسلہری کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی طرف سے فراہم کردہ لگ بھگ سات ارب ڈالر سے زائد کی مالی سہولت سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کسی حد تک اضافہ ہو جائے گا لیکن ا س سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر نہیں ہوگی ۔پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اسی صورت میں بہتر ہو گی جب پاکستان کے لیے عالمی ادارے 'آئی ایم ایف' کا پروگرام فعال ہو گا ۔
ان کے بقول اگرچہ پاکستان کو آئندہ سال تک عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے پانچ ارب ڈالر مل ہو سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام بحال ہو تاکہ پاکستان کی عالمی سطح پر ریٹنگ بہتر ہو جائے۔
عابد سلہری نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنے سے ہی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہو سکتی ہے جس کے بعد پاکستان ناصرف عالمی مارکیٹ میں بانڈز جاری کر سکتا ہے بلکہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے بھی پاکستان کو قرض کی سہولت حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔