پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت کی طرف سے صوبے کے عوام کو ایک اشتہار کے ذریعے متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کے افراد اور رشتے دارون کی کسی بھی مشکوک سرگرمی کے بارے میں حکام کو مطلع کریں، بصورت دیگر کسی بھی تخریبی کارروائی میں ملوث پائے جانے والے شخص کے اہل خانہ کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
یہ انتباہ صوبے کے اخبارات میں اشتہار کی صورت میں شائع کیا گیا۔
پیغام میں لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ اگر ان کے گھر کا کوئی فرد انفرادی یا کسی تنظیم کے رکن کے طور پر دہشت گرد کارروائی میں ملوث پایا گیا تو ان کے خلاف بھی دہشت گردی کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی جس میں پھانسی، عمرقید، منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی ضبطگی کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔
علاوہ ازیں لوگوں سےکہا گیا کہ وہ اپنے ایسے رشتے داروں کے بارے میں بھی پولیس یا متعلقہ حکام کو اطلاع دیں جو ایک عرصے سے غائب ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے سیاسی و عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے حامیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
معروف قانون دان لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو اپنے رشتے دار کے جرم کا علم ہے اور وہ اس کی اطلاع نہیں دیتا تو ایک طرح سے وہ بھی شریک جرم ہی تصور کیا جاتا ہے۔
تاہم اس اشتہار کے تناظر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔
ایک سرگرم کارکن زر علی خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے اور اس کی سزا اس کے گھر والوں کو بھی دی جائے یہ غیر انسانی فعل کے مترادف ہے۔
دریں اثناء قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں زمین کے تنازع پر دو قبائل میں ہونے والے مسلح تصادم میں ہلاکتوں کی تعداد 47 ہو گئی ہے۔
مقامی سکیورٹی ذرائع کے مطابق الوڑہ منڈی کے علاقے میں ایک پہاڑی سلسلے کی ملکیت کے تنازع پر یہ تصادم جمعہ کو شروع ہوا تھا جس میں دو درجن سے زائد افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔