خیبر ایجنسی میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی

Freddy Nock, người Thụy Sĩ, đi trên dây trong một cuộc thi ở hạt Vũ Long, Trùng Khánh, Trung Quốc.

پشاور پولیس کے سربراہ اعجاز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جس علاقے میں یہ کارروائی کی جارہی ہے وہ پشاور کی سرحد پر ہے اور اُن کے بقول نقل مکانی کرنے والوں کے بھیس میں دہشت گرد بھی آسکتے ہیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں سکیورٹی فورسز نے ’خیبر ون‘ کے نام سے علاقے میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق جمعہ کو کارروائی میں 10 مشتبہ شدت پسند مارے گئے جب کہ آٹھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق تحصیل باڑہ میں روپوش شدت پسند پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے میں ملوث ہیں۔

اس کارروائی میں باڑہ سے وادی تیراہ تک شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ باڑہ جانے والے تمام راستے بند ہیں جب کہ ملک دین خیل اور اکا خیل کے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔

پشاور پولیس کے سربراہ اعجاز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جس علاقے میں یہ کارروائی کی جا رہی ہے وہ پشاور کی سرحد پر ہے۔

’’ظاہری بات ہے جب فورسز وہاں پر آپریشن کریں گی تو وہاں سے (مقامی لوگ نقل مکانی کریں گے) اور اُن کے بھیس میں دہشت گرد بھی آ سکتے ہیں۔ اس کے لیے پشاور کے جو سرحدی علاقے ہیں وہاں کے لیے فرنٹیئر کور کی 18 سے 20 پلاٹون اسلام آباد میں تعینات ہیں جس سے ہماری جو (قبائلی علاقے سے) سرحدیں ہیں وہ بالکل غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔‘‘

اطلاعات کے مطابق باڑہ سے کئی خاندانوں نے نقل مکانی بھی کی ہے لیکن جس علاقے میں یہ کارروائی ہو رہی ہے وہاں تک میڈیا کی رسائی نہیں اس لیے آزاد ذرائع سے ہلاکتوں اور نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں پاکستانی فوج فضائیہ کی مدد سے حالیہ مہینوں میں تواتر سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتی آئی ہے۔

جمعرات کو بھی اس قبائلی علاقے میں فضائیہ کی مدد سے کی گئی کارروائی میں پاکستانی فوج کے مطابق 21 دہشت گرد مارے گئے تھے۔

خیبر ایجنسی کی سرحدیں صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور سے بھی ملتی ہیں اور صوبائی پولیس کا کہنا ہے کہ خیبر ایجنسی سے شدت پسندوں کے صفائے سے قیام امن کی کوششوں میں مدد ملے گی۔

یہ قبائلی علاقہ پڑوسی ملک افغانستان تک جانے کی بھی ایک اہم گزرگاہ ہے اور نیٹو افواج کے لیے سامان رسد کی بیشتر ترسیل بھی خیبر ایجنسی ہی کے راستے جاتی ہے۔