پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں پہلی مرتبہ غیر مسلم برداری سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو باضابطہ طور پر قبائلی عمائدین کا درجہ دیا گیا ہے جس کا مقصد قبائلی معاشرے میں اُن کو بہتر طور پر ضم کرنے کی کوشش ہے۔
خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ نے مسیحی برادری کے دو ارکان ولسن وزیر اور جیمز مائیکل جب کہ سکھ برادری کے گرومیت سنگھ اور نرنجن سنگھ کو "لنگی بردار" کا درجہ دیا۔
لنگی بردار ایسے قبائلی عمائدین ہوتے ہیں جو قبائلیوں کے ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ، قومی شناختی کارڈ، تعلیم کے لیے وظائف اور ایسی ہی ضروری دستاویزات کی تصدیق کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔
خیبر ایجنسی کے تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے گروپال سنگھ کا خاندان دہائیوں سے یہاں آباد ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں آباد میں مذہبی اقلیتوں کا یہ دیرینہ مطالبہ جس کے پورا ہونے پر وہ بہت خوش ہیں۔
"ہمارے لوگ بہت خوش ہیں اور وہ اس پر حکام کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔۔۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہمارے بہت سے لوگ دیگر علاقوں میں میں عارضی طور پر منتقل ہو گئے تھے ان کی مستقل آبادکاری کا بھی مسئلہ تھا تو اس میں بھی کافی مدد ملے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ اپنی برادری کے قبائلی عمائدین کے ساتھ وہ زیادہ سہولت اور آسانی سے اپنے مسئلے بیان کر سکتے ہیں جو ان کی بات پولیٹکل انتظامیہ یا گورنر تک پہنچا کر اس کے حل کی کوشش کر سکیں گے۔
پاکستان کے شمال مغرب میں سات قبائلی ایجنسیاں ہیں جو انتظامی طور پر وفاق کے زیر انتظام ہیں۔ خیبر ایجنسی وہ پہلا قبائلی علاقہ ہے جہاں اقلیتی برادری کے نمائندوں کو قبائلی عمائدین میں شامل کیا گیا۔
اقلیتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دیگر قبائلی ایجنسیوں میں بھی مذہبی اقلیتوں کے لوگوں کو عمائدین میں شامل کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے وہ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔