پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں شائع شدہ اطلاعات کے مطابق پولیس کے تحقیقاتی افسران نے 53 ایسے مشتبہ دہشت گردوں کی نشاندہی کا دعویٰ کیا جو ان کے بقول عرب ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیم داعش سے متاثر ہیں۔
حالیہ دنوں میں قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کے حکام کی طرف سے ذرائع ابلاغ میں آنے والے بیانات میں کہا گیا کہ "وہ یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ داعش کے حامی یہ افراد بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم سے رابطے میں ہیں بھی یا نہیں۔"
کچھ روز قبل کراچی پولیس کے ایسٹ زون کی تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے 53 افراد کی ایک فہرست تشکیل دی گئی، جو مبینہ طور پر داعش سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان تمام افراد کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے ہے اور یہ سب کراچی میں مقیم ہیں۔
واضح رہے کہ یہ تفصیلات اسی ماہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو فراہم کی جانے والی معلومات کے بعد سامنے آئیں، جن میں کہا گیا تھا کہ صفورہ بس حملے میں ملوث 14 افراد کی نشاندہی کر کے اُن میں سے آٹھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
عہدیدار کے بقول صفورہ بس حملے کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ملک کے شہری علاقوں میں رہنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں "داعش بہت زیادہ سرایت کرچکی ہے۔"
تاہم دوسری جانب سندھ پولیس کے ترجمان نے داعش سے متاثر 53 مشتبہ دہشت گردوں کی فہرست مرتب کئے جانے کی خبروں کی باقاعدہ طور پر تردید کی ہے۔
جبکہ اسی سلسلے میں مزید یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان ملزمان کی نشاندہی کر کے ایک خصوصی یونٹ کو ان کی گرفتاری کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے اور اس حوالے سے بہت جلد اہم پیش رفت سامنے آنے والی ہے۔
گزشتہ ماہ یہ اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں کہ کراچی پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے غیر قانونی طور پر پاک ایران سرحد عبور کرتے ہوئے گرفتار شدہ دو نوجوانوں سے تفتیش کی جس میں میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ دونوں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے شام جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں میڈیا پر شائع ہونے والی مذکورہ فہرست دراصل صفورہ بس حملے میں ملوث افراد سے کی جانے والی تفتیش میں سامنے آئی اور اسے سی ٹی ڈی نے تیار نہیں کیا، تاہم اس میں سی ٹی ڈی کی مدد اور انٹیلی جنس ضرور شامل تھی۔
سندھ پولیس نے کراچی کے علاوہ صوبے کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں اور ان کے نیٹ ورک کا تعاقب کیا ہے اور کئی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جبکہ مذکورہ فہرست میں ان افراد کے نام بھی شامل ہیں جن کا تعلق شہر کراچی میں کارروائیاں کرنے والی دیگر کالعدم تنظیموں سے ہے۔
داعش نے گزشتہ سال عراق اور شام کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں نام نہاد خلافت کا اعلان کرتے ہوئے اپنا دائرہ اثر خراسان تک بڑھانے کا کہا تھا۔ خراسان تاریخی اعتبار سے وہ علاقہ ہے جس میں افغانستان، پاکستان اور اس کے قرب جوار کے علاقے شامل ہیں۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ داعش ایک خطرہ ضرور ہے لیکن ملک میں اس کا کوئی وجود نہیں اور بعض شدت پسند اس کا نام استعمال کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بھی یہ کہہ چکی ہے کہ ملک میں بلاتفریق تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے جو دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔