رینجرز کو اضافی اختیارات کے مجوزہ بل پر تحفظات

نئے مجوزہ قانون میں نیم فوجی دستے ضرورت پڑنے پر انتباہ کے بعد شدت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کو گولی چلانے یا اس کا حکم جاری کرنے کے بھی مجاز ہوں گے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بڑھتی ہوئی بد امنی پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت نے ایک قانونی مسودے کی منظوری دی ہے جس کے تحت رینجرز مشتبہ افراد کو ایک ماہ سے تین ماہ تک زیر حراست رکھ سکیں گے۔ قانون میں نیم فوجی دستے ضرورت پڑنے پر انتباہ کے بعد شدت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کو گولی چلانے یا اس کا حکم جاری کرنے کے بھی مجاز ہوں گے۔

تاہم کراچی کے حالات سے متعلق اقدامات تجویز کرنے والی حکومت کی بنائی گئی کمیٹی کے رکن اور متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر فروغ نسیم نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رینجرز کو فائرنگ کے مجوزہ اختیارات کی فراہمی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ کمیٹی میں حکومت کی طرف سے یہ تجویز پیش نہیں کی گئی اور ان کی جماعت پارلیمان میں اس کی مخالفت کرے گی۔

’’جو اعلیٰ افسران فیلڈ میں نہیں انہیں تو اس قانون کے تمام پہلوؤں کا ادراک ہوگا مگر سپاہی کی ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اگر اس قسم کی پاور دے دی گئیں تو ایک غلط تاثر نا پیدا ہو جائے گا کہ ہم تو آزاد ہوگئے اور ہم جسے چاہے شوٹ کردیں۔‘‘

ایم کیو ایم کراچی کی ایک بااثر سایسی جماعت ہے اور حال ہی میں ملک کے اقتصادی مرکز میں شروع ہونے والے آپریشن کے طریقہ کار پر پہلے ہی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگا چکی ہے کہ اس میں متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور مرکزی ترجمان مشاہد اللہ خان نے مجوزہ قانون کی وجہ سے ماورائے عدالت قتل اور دیگر انسانی حقوق کی خلاورزیوں سے متعلق خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہیومن رائٹس والوں کے اپنے مسائل ہیں۔ اگر آپ اس چکر میں پڑے رہے تو ٹھیک ہے وہ ہوتا رہے گا جو پچھلے 25 سال سے چل رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ، انڈیا اور دیگر ممالک نے بھی ایسے قوانین بنائے۔ اگر امن و امان اور معیشت ختم ہوجائے تو یہ سب تو دھری کی دھری رہ جائے گی۔‘‘

قانونی ماہر اور سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل شعیب شاہین کہتے ہیں کہ بدامنی اور شدت پسندی کے تدارک کے لیے عدالتی نظام میں بھی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔

’’آپ جج کو پردے کے پیچھے بٹھائیں اور تمام پروسیجر مکمل کریں۔ عام آدمی کو نا پتہ چلے کہ کس عدالت میں فلاں کیس جاری ہے۔ دوسری طرف عدالتیں بھی آنکھیں بند کرکے فیصلے نا کریں۔ جزیات اور نکتوں کی بجائے حالات و قرائین پر مبنی انصاف پر چلیں۔‘‘

پاکستان کی معاشی حالت کو بہتر بنانا موجودہ حکومت کی اولین ترجیح بتائی جاتی ہے اور ماہرین کے مطابق یہ ہدف کراچی سمیت ملک بھر میں بدامنی اور شدت پسندی کے خاتمے کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔